دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تما شا نہ ہوا

 ہمارے ہاں انتخابات کے موسم میں جو ایک گہما گہمی بلکہ ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آتی ہے وہ نہ صرف انتخابات کے دن تک جاری رہتی ہے بلکہ کچھ حلقوں میں تو آنے والے انتخابات کے موسم تک جاری رہتی ہے جو جیتنے اور ہارنے والے دونوں کو مسلسل متحرک رکھتی ہے جیسے وہ اس شعر پر عمل پیرا ہوں کہ
ساقی خزاں قریب ہے اتنی پلا مجھے
کھویا رہوں میں آمدِ فصلِ بہار تک
اور ایسا بھی اس چشم حیراں نے دیکھا ہے کہ آدھا سیشن انتخابات میں جیتنے والا اسمبلی کا ممبر ہوتا ہے اور دوسرے نصف سیشن میں ہارنے والا عدالتی جنگ جیت کر ممبر بن جاتا ہے،یوں بھی وطن عزیز میں انتخابات کے نتیجے میں ہار جیت کبھی نہیں ہوتی بلکہ ایک فریق جیتتا ہے اور دوسرے کے ساتھ دھاندلی ہو جاتی ہے اور پھر پس انتخابات کے ہنگامے جاری رہتے ہیں یہ سب پہلے بھی ہو تا تھامگر اب سوشل میڈیا کی وجہ سے رائی کے پہاڑ بننے میں ذرا دیر نہیں لگتی،اور جو دل کی بات کہوں تو میں خود بات سے بننے والے یہ بتنگڑ خوب انجوائے کرتا ہوں کیونکہ بے ضرر سی تصویروں پر ایسے ایسے کمال کیپشن لگے ہوتے ہیں کہ پسند نا پسند سے بالا تر ہو کر اسے دل کے قریب دوستوں سے شئیر کرنے کو دل مچلتا ہے، خصوصاً انتخابات کے موسم میں تو جیسے یار لوگوں میں ایک نئی توانائی بھر جاتی ہے، پھر ان تبصروں کو لے کر کسی تقریب یا شادی بیاہ کی محفل میں اگر دو چار ہم خیال دوست اکٹھے ہوں وہ سوشل میڈیا کے پروپیگنڈہ کو ایک مستند رائے سمجھتے ہوئے خود کو سرشار کرتے 
رہتے ہیں اور اگر اتفاق سے کوئی مخالف کیمپ کا حمایتی ان کے پاس آ جائے تو پھر تماشا دیکھنے والا ہو تا ہے، دھیمی گفتگو دفعتاً پر جوش ہو تے ہوتے چیخم دھاڑ میں بدل جاتی ہے ہارنے جیتنے والے اور ان کی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کے عمائدین ان سارے ہنگاموں سے بے نیاز کسی اعلیٰ سطحی تقریب میں ایک دوسرے کو جپھیاں ڈالتے نظر آتے ہیں اور ان کے حما یتیوں کی ہنگامہ آرائی چیخم دھاڑ سے بڑھ کر مشت و گریباں کے مرحلے تک پہنچ جاتی ہے غالب ؔ نے کہا ہے کہ
ایک ہنگامہ پہ مو قوف ہے گھر کی رونق
نوحہئ غم ہی سہی نغمہئ شادی نہ سہی 
لیکن سچ کہتا ہوں مجھے گزشتہ سارا ہفتہ عشرہ سخت مایوسی ہو ئی کیونکہ برطانیہ کے کسی بھی شہر میں ایسا کچھ ہنگامہ بھی نہیں ہوا میں ان دنوں برمنگھم میں ہوں جہاں پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے آئے دن مل بیٹھنے کی تقاریب بھی ہوتی ہیں سیاسی گفتگو بھی ہو تی ہے مگر سچے پاکستانیوں کی طرح وہ محض وطن ِعزیز ہی کی سیاست اور سیاسی زعما پر بات کرتے ہیں میڈیا نہ سہی سوشل میڈیا انہیں مسلسل اپ ڈیٹ کرتا رہتا ہے لیکن 
جس ملک میں میں و ہ کئی برس بلکہ کچھ تو کئی دہائیوں سے آباد ہیں وہاں ووٹ بھی دیتے ہیں پسند و نا پسند بھی رکھتے ہیں کبھی کبھی سیاست پر بات کر لیتے ہیں مگر یہ سب کچھ مجھے بہت اوپرا اوپرا بلکہ پھیکا پھیکا سابھی لگتا ہے اس دوران میں برمنگھم کے علاوہ کچھ اور شہروں میں گیا ابھی دو دن پہلے مجھے لاف برو) loughbrough)کی یونیورسٹی اپنی بھتیجی فروا مقصود علی شاہ کے پاس جانا تھا ابتسام علی سیّد اکثر موٹر وے کی بجائے کنٹری سائیڈز کے راستے سے ہو کر جا نا پسند کرتا ہے اور سچی بات بھی یہی ہے کہ برطانیہ کا سارا حسن اس کی بڑی بڑی چراگاہوں اور گھنے سرسبز وشاداب درختوں سے گھرے ہوئے ان جادوئی راستوں میں ہے توراستے میں کئی ایک خوب صورت اور معروف قصبوں سے گزرنا ہوا خصوصاً نو ٹنگھم شائیر کے شہر سے جو رابن ہڈ کا شہر ہے۔ رابن ہڈ انگریزی لوک کہانیوں میں شیرووڈ جنگل کا ایک بہادر ڈاکو تھا جو لگ بھگ ہزار گیارہ سوبرس قبل گرد وپیش ڈاکے مارتا امیروں کو لوٹتا تھا اور غریبوں میں تقسیم کر دیتا تھا جب گفتگو کے دوران رابن ہڈ کا ذکر چھڑا تھا تو فروا ؔمقصود کا خیال تھا کہ شاید رابن ہڈ لوک کہانیوں کا ہی کوئی افسانوی کردار ہے لیکن اسکے بارے میں میری معلومات فرواؔ بٹیا کے بر عکس تھیں،خیر بات انتخابات سے پہلے کے ہنگاموں کی ہو رہی تھی جو اس دوران مجھے قرب و جوار میں کہیں بھی کسی بھی شہر میں نظر نہ آئے اسلئے میرا خیال تھا کہ یہ مصروف لوگ ہیں اسلئے یہ 
سارے ہنگامے انتخابات والے دن یعنی چار جولائی کو ہونگے جس کیلئے صبح سات بجے سے رات دس بجے تک پولنگ کا وقت مقرر اور ظاہر ہے اس کے بعد پھر گنتی کا عمل شروع ہو گا جو نہ جانے کتنے دنوں پر محیط ہو گا لیکن مجھے سخت مایوسی ہوئی کیونکہ حرام ہو جو چا ر جولائی بھی باقی دنوں سے کچھ زیادہ الگ ہو سب کچھ سکون سے نبٹ گیا اور رات گئے معلوم ہوا کہ قبل از وقت ہونیوالے ان انتخابات کے نتائج کے مطابق لیبر پارٹی نے مطلوبہ نشستیں حاصل کر لیں اور اکسٹھ سالہ سر کئیر اسٹارمر ملک کے اگلے وزیر اعظم ہونگے جنہوں نے وسطی لندن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”تبدیلی کا آغاز ہو رہا ہے اور سچ کہوں تو مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے‘ اور اب یہ ہمارے لئے کارکردگی دکھانے کا وقت ہے“ اور دوسری طرف کنزرویٹو پارٹی کے برطانوی وزیر اعظم رشی سوؔنک نے عام انتخابات میں اپنی شکست قبول کرتے ہوئے میڈیا سے کہا کہ میں اس شکست کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور میں نے ابھی فون کر کے سر کئیر اسٹارمر کو مبارکباد دی ہے، بلکہ کنزرویٹو جماعت کے ایک رہنما سٹیفن فلن نے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ”ان کی پارٹی کو اسٹارمر سونامی بہا لے گیا ہے“ لو جی بات ختم اب بتائیے تو بھلا یہ کیا انتخابات تھے بہت سے لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آئے یار انتخابات میں کون سی پارٹی جیتی اور جواب سن کر شانے اچکا کر بس اتنا ہی کہتے ”اوہ اچھا! یہی نظر آ رہا تھا“ غالبؔ یاد آگئے
تھی خبر گر م کہ غالب ؔ کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا