کہاں فرصت مرے احباب کو ہے

رومی سوسائٹی کے پروفیسر محمود رضا کا فون آیا کہ ایک بھرپور ادبی شخصیت سے آپ کی ملاقات کرواتے ہیں شاعر اور کہانی کارہیں میں نے کہا نیکی اور پوچھ پوچھ‘ سو گزشتہ جمعرات کو میں رومی سوسائٹی کے مدارالمہام ڈاکٹر قمر نواز اور ڈاکٹر عامر نواز کے دوا سازی کے ادارے کے کانفرنس روم پہنچا تو شاعر و کہانی کار جاوید اختر چوہدری پہلے سے موجود تھے میری ان سے تو خیر ملاقات نہیں تھی لیکن اتفاق سے میں نے ان کا کام بھی نہیں دیکھا تھا، اردو کی نئی بستیوں میں مقیم لکھاریوں کے پاس کار ِ ادب کیلئے بہت کم وقت ہو تا ہے،اسلئے ان میں سے بہت سوں کا کام ادب کے مرکزی دھارے تک کم کم ہی پہنچتا ہے کچھ تخلیق کار ایک آدھ کتاب بھی چھپوا لیتے ہیں مگر پھر برسوں تک انکی دوسری تخلیقات منظر عام پر نہیں آتیں پھر چند ایک ممالک کے بعض بڑے شہروں کو چھوڑ کر عموماً ادبی تقریبات بھی تواتر سے نہیں ہوتیں اسلئے بہت سے قد آور لکھاریوں کو وہ مقبولیت نہیں حاصل ہوتی جس کے وہ صحیح معنوں میں حقدار ہوتے ہیں، سو خیال گزرا کہ جاوید اختر چوہدری کا کام بھی ان کی مصروفیات کے نیچے دبا پڑا ہو گا،لیکن جب ڈاکٹر عامر نواز اور پروفیسر محمود رضا نے انکا تعارف کرایا توخود سے بہت شکایتیں ہوئیں،انکا کام مسلسل شائع ہوتا رہا ہے اور افسانوں کے مجموعوں کیساتھ ساتھ ناولٹ (ہوا کسی کی نہیں)نہ صرف شائع ہوئے بلکہ انکی مرتب کردہ ایک کتاب ”میں واقعی سوہاوہ کا ادیب ہوں“ تو کسی بھی لکھنے والے کو احساس ِ کمتری میں مبتلا کر سکتی ہے، یہ کتاب جاوید اختر چوہدری کی شائع ہونیوالی کتابوں پر پوری اردو دنیا کے کم و بیش ڈیڑھ سو جانے پہچانے، معتبر اور مستند قلمکاروں 
کے تنقیدی مضامین،تبصرے اور تجزیوں پر مشتمل ہے ہر چند میں نے ابھی اسے سرسری سا دیکھا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بڑی تقطیع کی پانچ سو صفحات پر محیط ایک اہم دستاویز ہے جس میں پاکستان‘انڈیا اور سات سمندر پار کی بہت اہم ادبی شخصیات کے تبصرے اور تجزیے یکجا کر دئیے گئے ہیں جو ان قلمکاروں کے طرز فکر اور طرز اظہار سے بھی متعارف کرواتے ہیں، ان میں سے بیشتر احباب سے میری بہت ملاقاتیں بھی رہی ہیں اور میں بہت سوں کے نام، کام اور مقام سے بھی آگاہ ہوں، حال ہی میں انکی خود نوشت ”کچھ مہرباں کچھ نامہرباں موسم“ کی پہلی جلد شائع ہو ئی ہے اسکے بیک ٹائٹل پر بھوپال کے پروفیسر آفاق احمد کیساتھ ساتھ الہ آباد کے علی احمد فاطمی(یادش بخیر جب بنے بھائی (سجاد ظہیر) کے صد سالہ جشن ولادت کی مختلف شہروں میں ہونیوالی تقریبات میں شرکت کیلئے میں انڈیا میں تھا تو الہ آباد میں علی احمد فاطمی اور شمس الرحمن فاروقی سے ملاقاتیں رہیں) اور بلیک برن برطانیہ کے شفیق و مہربان ڈاکٹر الٰہی بخش اختر اعوان کی آ راء شامل ہیں‘ڈاکٹر الہٰی بخش اعوان سے دوستی تو خیر بہت بعد میں تب ہوئی جب میں پشاور آ یا اور ادبی حلقوں میں آنے جانے لگا تھا لیکن وہ گورنمنٹ کالج نوشہرہ میں 
میرے اردو کے پروفیسر رہے ہیں‘پھر وہ برطانیہ چلے گئے اور وہیں کے ہو رہے تھے تاہم پشاور یاترا انکی معمول کی سرگرمیوں کا حصہ رہی، ہندکو لغت سمیت انکی فروغ ہندکو شعر و ادب کیلئے قابل تقلید خدمات ہیں انکی اپنی بھی ایک خود نوشت شائع ہوئی میرے پاس اسکے دو نسخے تھے ایک کہیں سے تبصرہ کیلئے آیا تھا اور ایک خود انہوں نے بہت محبت سے دیا تھا مگر اپنی عادت کے مطابق ایک نسخہ میں نے ایک دوست کو پڑھنے کیلئے دیا انہوں نے اجازت لے کر ایک اور دوست کو پڑھنے کیلئے دیدیا اور انہوں نے بغیر پوچھے ایک اور دوست کو دیدیا اور دوسرا نسخہ رفعت علی سید نے پڑھنے کے بعد اپنی فیملی میں کسی کو دیا وہ بھی ایک سے دوسرے کے پاس منتقل ہو تا رہا اور ستم ظریفی دیکھئے کہ اس خود نوشت کا نام بھول گیا ہوں لیکن اس خود نوشت میں دو تین باتیں ایسی تھیں جو نہ بھولنے والی اور بہت حیران کن تھیں ایک ان کی سوات کے کسی کالج میں تعیناتی کے بعد ایک آسیب زدہ ہاسٹل میں گزاری ہوئی رات کی کہانی جب وہ اپنے ساتھ والے کمرے میں جنات کی شادی کی تقریب دیکھ کر تھر تھر کانپنے لگے تھے تو ایک جن نے بزباں فارسی انہیں کہا تھا ”ڈرو مت، ہم کچھ دیر میں چلے جائیں گے“ اور ایک واقعہ حسن ابدال کا ہے جب وہ پہاڑی پر موجود بابا ولی قندھاری ؒ کی ”چلہ گاہ“ پر پہنچے تھے(بیشتر لوگ اس چلہ گاہ کو ان کا مزار سمجھتے ہیں وہ قندھار میں مدفون ہیں) تو تھکن اور بھوک سے پریشان ہو کر غالباً ایک درخت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لی تھیں،کچھ 
دیر میں کچھ آوازیں سن کر انکی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ایک لڑکی کھانے کا ٹرے انکے آگے رکھ کر چلی گئی تھی‘ لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم۔بات جاوید اختر چوہدری سے ملاقات کی نشست کی ہو رہی تھی وہ دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں برمنگھم میں انکے ہاں شاعروں ادیبوں کے کئی یاد گار اکٹھ ہوئے ہیں وہ دوستوں کا ذکربہت محبت سے کرتے رہے مجھے بہت اچھا لگا جب انہوں نے بتایا کہ دوست عزیز مقصود احمد شیخ اور ڈاکٹر الہٰی بخش اختر اعوان سمیت بہت سے بچھڑنے والے دوستوں کی فیملی سے وہ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں‘ہماری یہ نشست تو دیر تک رہی مگر ظہرانے کے بعد انہیں گھر پہنچنا تھا کیونکہ انکی بیگم کی طبیعت ناساز تھی مگر ان سے مل کر یہ حیرانی بھی ہوئی کہ معروف شاعرہ،افسانہ و ناول نگار اور خواتین اردو تذکرہ نویسی میں پہلی مانی جانیوالی تذکرہ نویس سلطانہ مہر جی انکی شریک حیات ہیں‘ ڈاکٹر عامر نواز نے انکی درجن بھر ضخیم کتابیں میز پر رکھ دیں تو بے ساختہ ان کیلئے دل سے دعا نکلی کہ وہ جلد شفائے کاملہ پا کر اپنا ادبی سفر پھر سے شروع کر سکیں جاید اختر چوہدری کے جانے کے بھی نشست دیر تک جاری رہی پروفیسر محمود رضا کے جواں سال برخوردار شجاع محمود بھی آگئے تھے یہ نشست بہت ہی صاحب مطالعہ ڈاکٹر قمر نواز کے اٹھائے گئے بہت عمدہ سوالات پر مبنی رہی، گھر آ کر کتابوں کے سرسری مطالعہ سے ایک دلچسپ کہانی پڑھنے کو ملی یہ جاوید اختر چوہدری اور سلطانہ مہر کے حوالے سے ہے مگر یہ کہانی پھر سہی سر دست کہانی کی خاطر شاعری ترک کرنیوالے جاید اختر چوہدری کا شعر دیکھئے
کہاں فرصت مرے احباب کو ہے
کہانی خود رقم کرنے لگا ہوں