بلاشبہ کہ ہر چھوٹی بڑی نئی اور پرانی یونیورسٹی کے ٹریژرری شعبے نے گزشتہ سال کی طرح امسال بھی حکومت کی طرف سے تنخواہوں اور پنشن میں اعلان کی حد تک ہونیوالے25فیصد20 اور15فیصد اضافے کو اپنے بجٹ میں شامل کیا ہوگا مگر سوال یہ ہے کہ ادائیگی کیسے؟ کس طرح؟ اور کہاں سے ہوگی؟ گزشتہ سال کے اضافے کیلئے تو صوبے کی نئی یونیورسٹیوں یا کیمپسز کو چھوڑ کر پرانی جامعات میں صرف پشاور یونیورسٹی کے ملازمین اسلامیہ کالج کی تائید جبکہ زرعی اور انجینئرنگ یونیورسٹی کے ملازمین کی عملاً شرکت سے پورے دومہینے سڑک پر بیٹھے رہے‘ بالآخر کلاس فور اور کلاس تھری کو اضافہ اور بقایا دونوں مل گئے مگر ٹیچنگ سٹاف یعنی اساتذہ اور گریڈ17 اور اس سے اوپر کے انتظامی افسران جبکہ ریٹائرڈ ملازمین تاحال محرومین اور متاثرین میں شامل ہیں‘ ریٹائرڈ ملازمین17.50 فیصد اضافے کے پورے9مہینوں کے بقایا جات سے جبکہ افسران چار مہینے کے بقایا جات سے محروم ہیں‘ انتظامی سٹاف گریڈ17 اور اس سے اوپر کے ملازمین کے گزشتہ سال کا30فیصد اضافہ امسال کے20فیصد سے ملا کر نصف تنخواہ کے برابر ہو جائیگا اور بالکل یہی حساب کتاب ٹیچنگ سٹاف کا بھی ہے‘یہاں پر ایک غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ تو20فیصد کیا گیا لیکن تنخواہوں پر ٹیکس عائد ہونے سے کٹوتی کتنی اور کس حساب سے ہوگی؟ ہرچند کہ ریٹائرڈ ملازمین آئے روز احتجاجی اور مشاورتی نشستیں‘ ملاقاتیں اور مطالبے کر رہے ہیں‘مگر حاضر سروس فی الوقت خاموش ہیں‘لیکن خاموشی زیادہ دیر برقرار نہیں رہے گی بلکہ ایک بار پھر دفاتر خاموش یعنی تالہ بند اور سڑکیں مصروف اور گرم ہو جائیں گی اور وہ اس لئے کہ حکومت کی طرف سے تو محض اعلان کیا جاتا ہے‘ اضافے کی ادائیگی مطلوبہ اضافی گرانٹ تو ملتی ہی نہیں‘ لہٰذا جب یہ روایتی پہلو تہی برقرار رہے گی تو تعلیم کا کیا ہوگا‘ اگر چہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مالی بحران پر قابو پانا کوئی مشکل یا ناممکن کام نہیں‘البتہ عزم مصمم اور قدرے قربانی کی ضرورت ہے‘ ساتھ ہی کفایت شعاری یا بچت کو خصوصی اہمیت حاصل ہوگی‘ مطلب اگر حکومت اپنے غیر ترقیاتی یعنی غیر ضروری اور پروٹوکول اخراجات اور پارلیمنٹرینز کی تنخواہوں اور الاؤنسز سے تھوڑا سا حصہ کاٹ کر تعلیم کے لئے مختص کردے اور ساتھ
ہی جامعات کو ملنے والی گرانٹ کے مکمل حساب کتاب بلکہ کڑے احتساب کیساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں ہونیوالے غیر ضروری بلکہ شاہانہ اخراجات کا محاسبہ کرلے‘ ہر جامعہ کو اپنی بساط کے مطابق ملازمین رکھنے کا پابند کردیا جائے‘ گاڑیوں‘ بجلی اور گیس کا استعمال کم سے کم کیا جائے تو تعلیمی اداروں کی ابتر مالی حالت میں مثبت تبدیلی اور بہتری کا واقع ہونا بالکل بھی ناممکن نہیں‘اگر ایسا نہیں ہوگا یعنی حکومت کا یہ خیال رہے کہ جامعات ازخود اپنی حالت بدلنے کیلئے خود احتسابی کی جانب گامزن ہو جائیں گی اور جامعات اس کی منتظر ہوں کہ تنخواہوں پنشن اور دوسرے اخراجات کیلئے مطلوبہ مالی وسائل پوری طرح حکومت فراہم کرے گی تومیرے نزدیک جامعات کی مالی بدحالی اور تعلیم کی روز افزوں ابتری کا کوئی حل سامنے نہیں آئیگا لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ حکومت اور جامعات مل کر اس جانب توجہ مرکوز کر دیں‘ بصورت دیگر کوئی بہتری نہیں آئے گی ہاں البتہ یہ خبریں گردش میں ہوں گی کہ حکومت صوبے کی32یونیورسٹیوں میں سے نصف تعدادکو بند کرنے کاارادہ رکھتی ہے‘میرے خیال میں حکومت کو بندش جیسے اقدام کی زحمت گوارا نہیں کرناپڑے گی کیونکہ گزشتہ دو عشروں سے صوبے کی جامعات تعلیم کو کوڑا دان میں ڈالنے کی جس پالیسی سے دوچار ہیں اسے جاری رکھتے ہوئے یونیورسٹیاں خودبخود بند ہو جائیں گی۔