سوشل میڈیا کی سمجھ نہ رکھنے والے ’ڈیجیٹل دہشتگردی‘ کے لیبل لگا رہے ہیں، عمران خان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے بارے میں کچھ نہ سمجھنے والے افراد ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کے لیبل لگا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر گزشتہ چند سالوں سے تنقید کی لہر کا سامنا کرنے والی فوج نے مئی میں اس طرح کے تاثرات کو ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کا نام دیا تھا اور آن لائن پلیٹ فارمز پر چلائی جانے والی فوج مخالف مہمات کا مقابلہ کرنے اور ان کو شکست دینے کے لیے پختہ عزم کا اعلان کیا تھا۔

اس مؤقف میں مزید سختی 83ویں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے اختتام پر دکھائی دی تھی جس میں فوج پر آن لائن تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

گزشتہ چند سالوں میں فوج کے خلاف سوشل میڈیا مہمات میں اضافہ ہوا ہے، جو ملک کے سیاسی اور سماجی ساخت میں وسیع تر تناؤ کی عکاسی کرتا ہے۔ حکومت، اکثر فوج کے ساتھ مل کر، بیانیہ کو کنٹرول کرنے اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے سخت اقدامات کے ساتھ جواب دیتی ہے۔

ان اقدامات کے نتیجے میں فوج اور ریاست کے خلاف ’منفی پروپیگنڈا‘ پھیلانے کے الزام میں صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کے خلاف متعدد گرفتاریاں اور قانونی کارروائیاں ہوئیں۔ مزید برآں، انٹرنیٹ تک محدود رسائی کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں اور ’ایکس‘ جیسے قابل ذکر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

فوج کا یہ ردعمل عمران خان کے ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ کے پس منظر میں سامنے آیا تھا، جس میں انہوں نے اپنے فالورز پر زور دیا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے واقعات پر حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کا مطالعہ کریں۔

یہ اصطلاح رواں ماہ کے شروع میں 265ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں دوبارہ نمایاں ہوئی تھی۔ اجلاس کے شرکا نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ’ریاست مخالف بیرونی طاقتوں کی سرپرستی میں جاری ڈیجیٹل دہشت گردی کا مقصد جھوٹ، جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کے ذریعے قوم میں نفاق اور مایوسی پھیلانا ہے، افواج پاکستان اور پاکستانی قوم ان سازشوں سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ دشمن کے مذموم مقاصد کو شکست دینے کے لیے پُرعزم اور متحد ہیں۔‘

اس بیان کے ایک دن بعد، پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ آزادی اظہار کو ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ قرار دینا ملک اور اداروں دونوں کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

دو روز قبل پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر فوج اور اس کی قیادت کے خلاف جھوٹا بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے، جہاں ’ڈیجیٹل دہشت گرد‘ معاشرے پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے موبائل فون، کمپیوٹر، جھوٹ اور پروپیگنڈے جیسے آلات کا استعمال کر رہے تھے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے فوجی ترجمان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ پریس کانفرنس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

آج عمران خان کے ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’پوری پاکستانی قوم کو دہشت گرد کہہ کر قوم سے نفرت کی جا رہی ہے۔ 70 کی دہائی میں رہنے والے چند لوگ جو اس بات سے مکمل طور پر لاعلم ہیں کہ سوشل میڈیا کس طرح کام کرتا ہے ڈیجیٹل دہشت گردی کا ٹائٹل بانٹ کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر ان کی پارٹی کی حمایت کرنے والے ہر شخص کو ’ڈیجیٹل دہشت گرد‘ قرار دیا گیا تو فوج اور عوام کے درمیان خلیج پیدا ہوگی۔

عمران خان نے کہا کہ ’90 فیصد آبادی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہے، 90 فیصد لوگوں نے پی ٹی آئی کے حق میں ووٹ دیا، نفرت پھیلانے والوں کو اپنے اعمال کا غور کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 1971 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا، 25 مارچ کو جب یحییٰ خان نے ڈھاکا میں بڑی تعداد میں لوگوں کے خلاف آپریشن کیا تو اس کے نتائج ملک کے لیے اچھے نہیں نکلے۔’

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر آبادی کی اکثریت کو اب بھی دہشت گرد کہا گیا تو اس کے ملک کے لیے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’ممالک، حکومتیں اور معاشرے اخلاقیات کی بنیاد پر بنتے ہیں، جس معاشرے میں اخلاقیات ختم ہو جائیں وہاں کچھ بھی باقی نہیں رہتا، آج اگر لوگ آپ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو وہ صرف آئین کی بالادستی کی بات کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ آئین کی بالادستی اور حقیقی آزادی کا مطالبہ کرنا غداری نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف بنائے جانے والے مضحکہ خیز مقدمات کا مطلب یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر پرامن طریقے سے کام کر رہے تھے اور جب آپ انہیں پرامن طریقے سے کنٹرول نہیں کر سکے تو آپ نے ان کے خلاف فاشسٹ ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیے۔‘

عمران خان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو اسلام آباد میں ریلی کی قیادت کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ملک میں رائج جابرانہ اور فاشسٹ نظام کے خلاف حقیقی آزادی کے حصول کے لیے پوری قوم کو ریلی میں بھرپور شرکت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘