دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سا یہ نہ تھا

پشاور سے موسم کی شدت اور حدت کی خبریں سن کر طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے پھر مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ نے بھی لوگوں کا جینا اجیرن کر رکھا ہے‘یہ ساون کا مہینہ ہے مون سون کی رت ہے مگر بارشیں روٹھی ہوئی ہیں‘ شنید ہے کہ دو ایک دن تک زور کا چھینٹا پڑنے کی پیشگوئیاں گردش میں ہیں حبس کے اس موسم میں اس طرح کی خبریں بھی ڈھارس بندھاتی ہیں، یہاں برطانیہ میں بھی بعض شہروں میں یار لوگ گرمی کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں گزشتہ روز بہت دنوں کے بعد سورج مسلسل ذرا ذرا وقفے سے نظر آتا رہاتو یار لوگ گرمی کی شکایت کرتے رہے اور میں حیران تھا کیونکہ اس دن درجہ حرارت پچیس اور تیس ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہا مگر یہاں کے باسیوں کے لئے یہ ایک گرم دن تھا، ایک حوالے سے شاید وہ حق بجانب تھے کیونکہ جب بھی درجہ حرارت تیس ڈگری سینٹی گریڈ تک جانے کی پیشگوئی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی میڈیا پر ہیلتھ الرٹ کے اعلانات شروع ہو جاتے ہیں چونکہ بادل سورج کو زیادہ دیر تک آسمان پر چمکنے کی اجازت نہیں دیتے اس لئے درجہ حرارت زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتا اور پھر واپس وہی بارہ سے سترہ درجے تک پہنچ جاتا ہے جو یہاں بیشتر شہروں کا عمومی درجہ حرارت رہا ہے اب کے تو جون کا مہینہ وسط جولائی تک خاصا سرد رہا ہے ہمارے ہاں یہ ہاڑ کا موسم ہوتا ہے اور گرمی پورے جوبن پر ہوتی ہے‘ اگرچہ بارشوں کی صورت میں جون کا پہلا پندرھواڑہ گزشتہ چند برسوں سے کوئی زیادہ گرم نہیں ہو تا۔ برمنگھم میں میرے نزدیک وہ دن خاصا گرم ہوتا ہے جب مجھے کمرے میں ”تھرو“(چھوٹا کمبل) اور باہر سویٹر کی ضرورت نہیں ہوتی، اور ایسا دن وسط جولائی تک شاذ ہی آیا ہے‘البتہ ساون کے اس موسم میں کوئی کوئی دن ایسا ضرور ہو تا ہے لیکن جس موسم میں مجھے سویٹر کی ضرورت پیش آتی ہے اور جیکٹ بھی احتیاطاً گاڑی میں رکھ لیتا ہوں‘ ایسے موسم میں یہاں کے باسی آدھی آستین والی شرٹس میں اف اف کرتے گھوم رہے ہو تے ہیں،اور کمروں میں پنکھے تک لگا لیتے ہیں، گھر میں البتہ یہ موسم لکھنے پڑھنے کے لئے زیادہ موزوں ہے، سفر میں زیادہ کتابیں ساتھ نہیں لائی جاسکتیں اس لئے زیادہ تر مطالعہ برقی کتب (ای
 بکس) کا ہی کیا جاسکتا ہے،اگر چہ ای بکس پڑھنے سے پوری تشنگی کم نہیں ہوتی لیکن نہ ہونے سے بہت بہتر ہے اب تو خیر ہم اسی کلچر میں سانس لے رہے ہیں بلکہ اب تو زیادہ شہرہ ”مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) کا  بھی ہے، گویا اب کمپیوٹربادشاہ (سوفٹ وئیر) کو یہ صلاحیت دی جارہی ہے کہ وہ معلومات کا خودہی تجزیہ کر کے صورت حال کے مطابق خود ہی فیصلہ کر سکے،موسیقی میں تو بنے بنائے ٹریک پر سرے بے سرے سارے گانا گانے لگے ہیں اب شاعروں کو بھی فارغ کرنے کا سوچا جا رہا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کم و بیش تین دہائیاں قبل نظم کے کے بے بدل شاعر ڈاکٹر وحید احمد نے اپنے پہلے شعری مجموعہ ”شفافیاں“ کے پیش لفظی نظم میں اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب کمپیوٹر بھی شعر کہے گا اور سخنور فارغ ہو جائیں گے۔“ لیکن پھر دو ٹوک انداز میں یہ کہہ کر اس خدشہ کو رد کر دیا تھا کہ 
 ”جس دن شعر کی برق تجلی کمپیوٹر کے طور پہ اتری اس دن اس کے سارے سرکٹ جل جائیں گے یہ تو شاعر کا جگر ا ہے جو ہر جلتا مصرع اپنے دل کے اوپر لے لیتا ہے“ دیکھئے اب یہ ”اے آئی“ کا شور کب تھمے گا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جہاں کتاب تک رسائی نہ ہو ای بکس سے دل بہلانا پڑتا ہے اوراس سے البتہ مسودوں کی ترسیل بھی آسان ہو گئی ہے‘ سوفٹ کاپی بھیج کر کام چلایا جا سکتا ہے، مجھے گزشتہ دو برسوں میں احباب کی طرف سے کئی مسودوں کی سوفٹ کاپیز ملی ہیں ابھی حال ہی میں مجھے ساؤتھ افریقہ میں مقیم ایک جواں سال اور جواں فکرپاکستانی افسانہ نگار کے بہت عمدہ کہانیوں کے مجموعہ ”گماں سے بیاں تک“ شائع ہوا ہے مجھے اس کا مسودہ ملا تھا،ممنوعہ منطقوں میں جنم لینے والی ان کہانیوں پر میری رائے بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔
  ”یہ جو سچا تخلیقی وفور ہوتاہے یہ ہمیشہ پائمال راستوں سے ہٹ کے سانس لینا پسند کر تا ہے دیکھے بھالے منطقے اسے ایک آنکھ نہیں بھاتے 
 اس لئے ناہموار راستوں پر بھی ا س کا بہاؤ دیدنی ہو تا ہے میں نے جب جواں فکر افسانہ نگار گلزار دانش کی کہانیوں کے چوپال میں کچھ وقت گزارا میری آنکھوں میں گزشتہ کل کی وہ پنچایتیں رڑکنے لگیں جب اپنے گاؤں کے صاف شفاف اور پاکیزہ ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے تمام تر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر انتہائی مشکل فیصلے بہت سہولت سے کر لئے جاتے تھے مجھے حیرت ہوئی کہ جواں سال و جواں فکرگلزار دانش کو ابھی سے بستی میں رہنے والے سانپوں کو رام کرنے کا ایسامنتر ودیعت ہوچکاہے کہ وہ پوری صلاحیت کے ساتھ ممنوعہ منطقہ میں جنم لینے والی کہانیوں کی بانبی میں بے خوفی سے ہاتھ ڈال رہا ہے، وہ اونگھتی راہداریوں کی نیم وا آنکھوں میں منجمد ہونے والے مناظر کو آسانی سے ڈی کوڈ کرنے کا ہنر جان چکا ہے،اس کی کہانیاں رشتوں کی پیچ در پیچ گلیوں میں شام کے بعد کے پھیلتے ہوئے ا ندھیرے کی سر گوشیوں کے ذائقے بھی چکھانے پر قادر ہیں، اس کی ایک کہانی نے تومیرے ساتھ وہی سلوک کیا جو افتی نسیم کی نظموں کے مجموعہ نر مان کے دیباچہ نے کیا تھا، ”تو کیا یہ زندگی کی صلیب مجھے عمر بھر اکیلے ہی اٹھانا ہو گی“ میں نے جب ایک شام افسانہ میں گلزار دانش کا پہلاافسانہ سنا تھا تو مجھے لگا کہ نوجوان کے پاس کہانی بننے کا فن بھی ہے، دیکھنے والی آنکھیں بھی ہیں اور اسے یہ بھی علم ہے کہ افسانوی ادب کا اسلوب لاکھ تمثیلی سہی اس کی اسا س ایک تلخ حقیقت پر استوار ہوتی ہے،اور اب جب”گمان سے بیاں تک“ کے افسانوں کے ساتھ میں نے کچھ وقت گزاراتو مجھے یقین سا ہو چلا کہ اس کھلنڈرے بالک کو جلد ہی وہ جگہ ملنے والی ہے جہاں سے اس کی آنکھیں پارسائی کی دھند میں لپٹی اس دنیا کے سارے ناٹک آسانی سے دیکھ پائیں گی۔“ موسم مہرباں ہویا زیادہ مہرباں نہ ہو کار ادب کے لئے ہر موسم مناسب ہے کہ باہر کے موسم تو آتے جاتے رہتے ہیں اور جس طرح یہ موسم ہوتے ہیں شاعر کو  اس طرح یہ نظر نہیں آتے، قتیل شفائی یاد آگئے۔
   دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سا یہ نہ تھا
  اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا