چاپ قدموں کی ہو گئی دھیمی


یہ گزشتہ اتوار کی شام تھی اور میں ادبی تنظیم فانوس کے اشتراک سے ہونیوالی برمنگھم پوئٹس کی تقریب میں تھا جو ابھی شروع نہیں ہوئی تھی ہر چند پاکستان میں ہونے والی کسی بھی ادبی تقریب جتنی تاخیر تو نہیں ہوئی تھی تاہم تقریب کے مدارالمہام ڈاکٹر ثاقب ندیم اور گلناز کوثر کے چہروں پر مجھے بے چینی کے آثار صاف نظر آ رہے تھے جسے وہ اپنی مسکراہٹ سے چھپانے کی کوشش کر رہے تھے‘ رومی سوسائٹی کے مرنجاں مرنج محمود رضا اور خواجہ محمد عارف سمیت برمنگھم کے قلم قبیلہ کے دوست تو بر وقت پہنچ چکے تھے مگرباعث تاخیر برطانیہ کے دوسرے شہروں بریڈ فورڈ‘ لندن‘ لیڈز اور مانچسٹر سے آنے والے احباب تھے‘ منتظمین کی پریشانی اپنی جگہ مگرتقریبات میں یہ موقع اس لحاظ سے غنیمت ہو تا ہے کہ احباب کی غیر رسمی ملاقاتیں اور گپ شپ کے ساتھ تصاویر بنانے کا موقع مل جاتا ہے‘اب بریڈ فورڈ سے اشتیاق میر اور لاہور سے پروفیسر ڈاکٹرسعادت سعید سمیت بہت سے دوسرے دوست آ چکے تھے صرف مانچسٹر کے قافلہ کا انتظار تھا جو صابر رضا کی قیادت میں برمنگھم تو پہنچ چکا تھا مگر ٹریفک کی وجہ سے مشاعرہ گاہ نہیں پہنچ پایا تھا ‘ ان کے انتظار کی شدت کو کم کرنے لئے ڈاکٹر ثاقب ندیم نے احباب کو چائے کی میز کی طرف آنے کی دعوت دے دی۔ چائے کی میز پر ایک دوست بہت گرم جوشی اور بے پناہ محبت سے ملے اور پشتو زبان میں حال احوال پو چھا اور مجھے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ میں نعیم حیدر ہوں اور یہ ہماری دوسری ملاقات ہے ‘ میں کم کم ہی احباب کو بھولتا ہوں مگر مجھے فوراَ َ یاد نہیں آیامگر جب انہوں نے یار طرحدار مرحوم سجاد بابر کا ذکر کیا تو یاد آیا‘ سجاد بابر کا بیرون ملک ایک وسیع حلقہ احباب کا تھا اورجب بھی کوئی دوست ان سے ملنے پشاور آتا تو سجاد بابر مجھے فون کر کے بلا لیا کرتے تھے کتنے ہی احباب سے میری پہلی پہلی ملاقاتیں ان ہی کے ڈرائنگ روم میں ہوئی ہیںنعیم حیدر سے بھی کوئی بیس سال قبل پشاور میں سجاد بابر کے ہاں ملا تھا‘ نعیم حیدر بتا رہے تھے کہ ان کے شعر می مجموعہ میںسجاد بابر کا مضمون بھی موجود ہے ابھی ان سے بات چیت جاری تھی مانچسٹر کا ادبی کنبہ بھی آن پہنچا تواحباب اپنی اپنی نشستوں کی طرف بڑھنے لگے توطے یہ پایا کہ جلد ہی ایک ملاقات میں سجاد بابر کے حوالے سے نعیم حیدر اور میں مکالمہ کریں گے‘ برمنگھم پوئٹس کا یہ ادبی اکٹھ برمنگھم میں مقیم فیصل آباد کے معروف شاعر اقبال نوید کے پہلے شعری مجموعہ ’ بند مٹھی میں جگنو ‘ کی تقریب پذیرائی اور مشاعرے پر مشتمل تھا‘یہ ایک بھرپور نشست تھی اس شام برمنگھم کمیونٹی ہال کی چھت تلے اچھا شعر سنا اور پڑھا گیا اور ایک عمدہ شعری مجموعہ کے حوالے سے بہت اچھے تبصرے اور تجزیے پیش کئے گئے میں نے بھی اس ضمن میں اپنا حصہ کچھ یوں ڈالا‘ ” اقبال نوید کا شعری مجموعہ ’بند مٹھی میں سورج ‘یکسر ایک نئے شعر کا منطقہ ہے جہاں درد کے عنوان اور سے اور اسلئے بھی ہیں کہ وہ چیزوں کو اس نظر سے نہیں دیکھتے جس طرح نظر آتی ہیں وہ کائنات میں نظر آنیوالی اشیا کے بھیتر میں چھپے بھید بھاو¿ جاننا چاہتے ہیں انہیں بس اتنا علم ہے کہ
خلا سے آگے نکل کے گتھی سلجھ سکے گی
اورمجھے یہ غالب کی اس فکر کا تسلسل لگتا ہے کہ ’عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکان اپنا ‘ مجھے بند مٹھی میں سورج کا شعر روشنی اور اجالے کی سمت ایک مسلسل سفر کی روداد لگتا ہے اور یہ روشنی فکر کی روشنی ہے نوید اقبال چیزوں کو محض دیکھتے ہی نہیں اجلا بھی دیکھنا چاہتے ہیں اسلئے ان کا یہ سفر مکان و مکین ہی نہیں آسمان و زمین بلکہ گمان اور یقین سے بھی آگے کا سفر ہے‘ یہ سفر شش جہات کا سفر ہے جو خلا کی اور ا±ڑان کی صورت بھی ہے ‘یہ سفر اپنے اندر کے تاریک براعظم کا سفر بھی ہے اور سمندروں کی وسعتوں کو پاٹنے کا سفر بھی ہے بیک وقت خارج اور باطن کے دونوں جہانوں میں سانس لینے والے نوید اقبال کے شعر میں لفظ سراسر ایک نئی معنویت اور نئے طرز احساس مگر تہذیبی رچاو¿ کیساتھ برتا گیا ہے اسلئے جب میں اس کے شعر کو روشنی کی تلاش کا سفر کہتا ہوں تو مجھے برتے گئے لفظ بھی سفر میں لگتے ہیں کیونکہ یہ لفظ متحرک تصویریں بناتے ہیں نوید اقبال اپنے شعر کا فکری نظام ترتیب دیتے ہوئے چنیدہ الفاظ کو 
نہ صرف اپنی مکمل دسترس میں رکھتے ہیں بلکہ وہ انکو نئی سان چڑھاتے ہوئے ایک الگ سی معنویت اور ایک نئی جہت دینے اورانہیں نئے علائم بنانے پر بھی قدرت رکھتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ انہیں ایک تہذیبی عمل سے گزار کر برتتے ہوئے شعر کے جمالیاتی تقاضوں سے بھی غافل نہیں رہتے‘ چنانچہ جہاں وہ سفر کیلئے شش جہات کو زیر پا رکھتے ہیں وہاںروشنی کیلئے بھی ان کی ریاضت اور تلاش سورج۔ستارہ‘چاند‘ چاندنی کیساتھ ساتھ آگ‘ صبح کا اجالااور تاریک کمرے کی کھڑکی تک چلی جاتی ہے یوں تو وہ خود بھی کہتے ہیں
تلازمے میں سجا کر کیا ہے پیش نوید
جو لفظ لہجہ¿ آسان میں نہیں آیا
 نوید اقبال ایک خود آگاہ شاعر ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ وقت کے جس دھارے میں ہم بہے جارہے ہیں وہ اخلاقی انحطاط‘ نفسیاتی ہیجان‘ خلفشاراور خود غرضی سے مملو ہے مگر ان کا دکھ اس لئے گھمبیر ہو جاتاہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ اس سفر کے رائیگان ہونے کی فکر کسی کو نہیں ہے ‘چاند چہروں ‘ غزال آنکھوں اور لب و رخسارکی روایتی دنیا سے الگ اپنی ایک دنیائے شعر بسانے والے نوید اقبال کے دکھ اور سکھ ذاتی نہیں اجتماعی ہیں وہ اپنے لوگوں اور اپنی زمیں کو آسمان کے تسلط سے آزاد رکھنے کے بھی خواہاںہیں یہ دکھ بھی ان کے سانس چھوٹے اور حلق نمکین کر دیتا ہے۔
کس طرف لے جاو¿ں میں سہمی زمیں کو
آسماں ہر سمت سے جھپٹا ہوا ہے 
بند مٹھی میں سورج کے شعر کی دنیا ایک نئے شعر کی دنیا ہے روایتی غزل سے الگ اپنا ایک راستہ بناتی ہوئی اس نئی دنیا کی صبح اجالے کی محتاج نہیںہے ” دن نکلتا نہیں اجالے سے “ اور نہ ہی دن کو ڈوبنے کے لئے سورج کے غروب ہونے سے کوئی علاقہ ہے ’ سورج غروب ہو گیا ڈوبا نہیں ہے دن “ ایسے عمدہ شعر قدم قدم پر آپ کو روک روک کر نظیر ی نیشا پوری کی زبان میں کہتے ہیں
زفرق تا قدَ مَش ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامن ِ دل می کشد کہ جا ایں جا ست 
لیکن جو شعر میری ‘آنکھوں میں مسلسل دھواں بھرتا رہا وہی آپ کے سپرد کر کے اجازت چاہتا ہوں‘ آپ کو صرف بارہ لفظوں سے ترتیب پانے والے اس شعر میں ا نتظار ‘ درد‘ مایوسی اور احساس محرومی کی کئی ایک متحرک تصویریںنظر آئیں گی 
چاپ قدموں کی ہو گئی دھیمی 
کوئی آ کر پلٹ گیا شاید