صبح سے شام ہو ئی روٹھا ہوا بیٹھا ہوں 

ترتیب وقت میں کچھ لمحے ایسے بھی ہو تے جو انسان کے اندر کہیں رک سے جاتے ہیں اور پھر بہانے بہانے رواں بھی ہو جاتے ہیں اور انسان بے اختیار ان کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے میرے اندر اس طرح کے رکے ہوئے بہت سے لمحے ہیں جو کسی بھی وقت کسی بھی بہانے میرے سامنے آن کھڑے ہو جاتے ہیں اور مجھے قطعاََ نہیں لگتا کہ وقت کی دھول نے ان کے خد و خال کبھی دھندلا ئے ہیں جیسے مجھے سو لہ برس پرانی یہ بات کل کی سی بات لگتی ہے جب مجھے طرح دار شاعر دوست محسن احسان مرحوم کی کال آئی تھی کہ میں پشاور آیا ہوا ہوں اگر فارغ ہو تو آ جاؤ ملنے کو جی چاہتا ہے میں نے کہا بہتر ہے دیکھتا ہوں کہ اگر کوئی اور دوست بھی ساتھ آ سکے تو کہنے لگے بہت اچھا ہو گا ہم مل کر یہاں افطاری کریں گے میں نے منع بھی کیا مگر وہ مانے نہیں اور کہا، نہیں نہیں میں افطاری پر انتظار کروں گا، میں جانتا تھا کہ ان کے دل کی طرح ان کا دستر خوان بھی کشادہ تھا اس لئے جب بھی کوئی شاعردوست باہر سے انہیں ملنے آ تے مجھے ان کا فون آ تا کہ ’فلاں دوست کل آ رہے ہیں احباب کو ذرا اطلاع کر دو کہ شام کو آ جائیں شعری نشست بھی ہو جائے گی اور مل کر ڈنر بھی کریں گے‘ سو اسی روایت کے مطابق انہوں نے افطاری کا اہتمام کیا، رمضان میں کم کم دوست ہی میسر آتے ہیں لیکن میں نے حسام حر اور مشتاق شباب سے کہا تو محسن احسان سے ملنے کے لئے فوراََ تیار ہو گئے حیات آباد کے حوالے سے میرا جغرافیہ کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے پھر بھی محسن احسان مرحوم کے گھر چونکہ روز کا آنا جانا تھا اس لئے کچھ کچھ یاد تھا مگر پھر ان کا فون آیا کہ وہ (غالباََ) ہمشیرہ کے گھر میں ہیں اور ایڈریس بھی بھیج دیا یہ 2008 کے ستمبر کا زمانہ تھا اور اس وقت ابھی گوگل میپ اور نیویگیشن بھی متعارف نہیں ہوئے تھے اس لئے حیات آباد میں ہمیشہ کی طرح میرے گائیڈ اور یاروں کے یار عزیز اعجاز کی خدمات لیں سو ہم چاروں کا ٹولہ محسن احسان سے ملنے ان کے ہاں جا پہنچا، میں نے یاروں سے کہا کہ ایک پینل انٹرویو کا ڈول ڈالتے ہیں، اسی طرح ہوا لیکن اس دن زیادہ گفتگو احمد فراز کے حوالے سے ہوئی یوں بھی کچھ ہی دن پہلے اگست کے پچیسویں دن وہ بچھڑے تھے محسن احسان اْن دنوں زیادہ وقت ا پنے بچوں (علی اور عائشہ بٹیا) کے پاس برطانیہ کے خوبصورت ٹاؤن ”کوونٹری“ میں گزارتے تھے ا ور اب کے بہت دنوں بعد پاکستان آئے تھے انہیں قلق تھا کہ وہ احمد فراز کے جنازہ میں شریک نہیں ہو پائے تھے کیونکہ وہ خود بھی صاحب فراش تھے مجھے احمد فراز کے بچھڑنے کے بعد پہلا پرسا انہوں نے ہی فون پر دیا تھا اور حیدر دہلوی کا ایک شعر بھی سنایا تھا
  یہ کیا دست ِ اجل کو کام سونپا ہے مشیت نے
  چمن سے پھول چننا اور ویرانے میں رکھ دینا
اور پھر ٹھیک دو برس بعد ستمبر کے اسی ستمگر مہینے کے آخری عشرے کے اوائل میں وہ بھی اپنے یاروں کے پاس چلے گئے اگرچہ انہوں نے آخری سانسیں برطانیہ میں ہی لیں مگر ان کے بچوں نے ان کی خواہش کے مطابق ان کا جسد خاکی پشاور پہنچایا اور بتا نہیں سکتا کہ اس دن کہاں کہاں سے ان کے چاہنے والے ان کا آخری دیدار کرنے پشاور امڈے چلے آئے تھے، ان کا شعر، ان کی وجاہت،ان کی آواز اور ان کی بھلے مانسی کے قصے آج بھی ان کا ذکر آتے ہی زبان پر رواں ہو جاتے ہیں، یہ سب باتیں مجھے گزشتہ شام برمنگھم سے کوونٹری جاتے ہوئے یاد آ رہی تھیں،پچھلے برس تین مہینے برطانیہ میں گزارنے اور بے پناہ خواہش کے باوجود بھابھی اور عائشہ بٹیا سے نہیں مل سکا تھا،علی ان دنوں اسلام آباد میں تھا ان سے رابطے میں تھا، مگر ملاقات کی کوئی صورت نہیں بن پائی تھی، اب کے پھر جب رومی سوسائٹی کی دعوت پردوبارہ برمنگھم آ یا تو برخوردار ابتسام علی سیّد بھی بفضل خدا تعلیم مکمل کر کے گریجوئیشن کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ برمنگھم شفٹ ہو گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہاں سے کو ونٹری محض تیس پینتیس منٹس کی دوری پر ہے، علی سے نمبر لے کر عائشہ بٹیا سے بات ہوئی معلوم ہوا کہ علی بھی یہیں ہے اور اب ان کی دعوت پر ہم ان سے ملنے جارہے تھے،انہوں نے بطور خاص رفعت علی سیّد،اور بہو بٹیا ثمرین اور ابتسام علی سیّد کو بھی ساتھ لانے کا کہاظاہر ہے اشمان علی سیّد کو تو ساتھ ہونا ہی تھا، سو جلد ہی ہم پہنچ گئے تو عائشہ بٹیا کا فون آیا کہ انکل ہم انتظار میں ہیں میں نے کہا ہم بھی دروازہ پر منتظر ہیں کہ دروازہ کھلے تو فون پر بات کرتے کرتے انہوں نے دروازہ کھول دیا، ان کی آواز میں خوشی بھری ہوئے تھی، ان کے ابا جی کا ادبی کنبہ آیا تھا، علی بھی تھے اور مجھے جلدی تھی کہ بھابھی سے مل لوں، بھابھی سے بہت زمانے بعد مل رہا تھا بہت اچھا لگا مگر آنکھوں میں دھواں سا بھر گیا کہ پہلی بار ان سے محسن احسان کے بغیر مل رہا تھا، مجھ میں زیادہ ہمت نہ تھی رفعت علی سیّد ان سے ملنے لگی تو میں عائشہ بٹیا کے شریک حیات شاہد بخاری سے گرمجوشی سے ملا وہ یقیناََ حیران ہوں گے کہ پہلی ملاقات میں یہ شخص اتنی دیر تک کیوں گلے لگا رہاہے انہیں کیا بتاتا کہ خود کو کمپوز کر رہا تھا کہ آنکھوں سے دھواں بھگا سکوں، یہ اور بات کہ جب شاہد سے تفصیلی تعارف ہوا تو ملاقات کا لطف دو بالا ہو گیا کیونکہ ان کے ڈرائینگ روم میں جہاں پشاور کی یادوں کی گیند ٹپے کھارہی تھی اور محسن احسان،احمد فراز اور خاطرغزنوی کا ذکر دھمال ڈال رہا تھا وہاں اچانک شاہد بخاری کے دادا جان کی جادوئی آواز بھی سب کو بانہوں میں بھرنے لگی تھی کیونکہ شاہد بخاری کے دادا جان شاعر، صداکار اور ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار علی بخاری (زیڈ۔اے۔بخاری) کے پوتے تھے،جنہوں نے بہت سے معروف صداکاروں کی آواز کی تربیت کی تھی۔ شاہد بخاری نے کمال یہ کیا کہ انہوں نے محسن احسان اور احمد فراز کی باہمی دوستی کے میٹھے زمانوں کی کہا نیاں اور نوک جھونک کے ان گنت قصے ریکارڈ کر لئے تو ساتھ ہی پطرس بخاری اور زیڈ اے بخاری کے دلچسپ واقعات اور زیڈ اے بخاری کی خود نوشت ’سرگزشت‘ سے ریڈیو پاکستان کے سنہرے دنوں کی شگفتہ باتیں بھی محفوظ کر لیں،یاروں کے اتنے قصے ہیں کہ کئی نشستیں کم پڑ جائیں مگر عائشہ بٹیا بار بار کہتی رہیں کہ باقی باتیں کھانے کی میز پر ہوں گی تو سلسلہ روکنا پڑا، پر تکلف عشائیہ کے بعد بھی ان یاروں کا ذکر چلتا رہا جنہوں نے بہت دور بستیاں بسا رکھی ہیں، رفعت علی سیّد چونکہ بھابھی کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھیں سو ان سے ان کی بہت باتیں ہوئیں جو رات گئے واپسی پر ہمیں سناتی رہیں، ایک طرف بھابھی جان علی بیٹے اور عائشہ بٹیا کو مل کر میری بہت دنوں کی خواہش پوری ہوئی تو دوسری طرف شاہد علی بخاری کی بے پناہ پشاوری محبتوں نے بھی اپنا اسیر کر لیااور یوں ایک بہت ہی سرشار کرنے والی شام نے دل کے بہت قریب رہنے والے دوستوں کی محبتوں سے شرابور کر دیا،شام کے ذکر سے محسن احسان کے ایک شعر کا پھول ہونٹوں پر کھلنے لگا۔
  صبح سے شام ہو ئی روٹھا ہوا بیٹھا ہوں 
  کوئی ایسا نہیں آ کر جو منا لے مجھ کو