بھلائی اور فلاح کا کام کسی کے ہاتھ پر بھی ہو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی ستائش کرنی چاہئے اس طرح کا طرز عمل زیر بحث مژدے کے بارے میں بھی مناسب ہو گا‘ اب اگر یہ بات کسی کے علم میں نہ ہو کہ یہ مژدہ کیا ہوتا ہے تو ان کیلئے عرض ہے کہ فارسی یا افغانی درسی زبان میں خوشخبری کو مژدہ کہا جاتا ہے لہٰذا اس سے بڑی خوشخبری اور کیا ہو سکتی ہے کہ تعلیم بیچاری آئی سی یو یعنی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں پڑی سسک رہی ہو اور اعلیٰ تعلیمی ادارے بندش کی جانب بڑی تیزی سے گامزن ہوں ایسے میں تعلیم کارڈ منصوبے کے اجراءکا اعلان اگر ایک بڑی خوشخبری نہ ہو تو اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہر چند کہ اعلان کے اطلاق کیلئے ابتدائی طور پر جس حدود کا تعین کیا گیا ہے وہ نہایت محدود لگتی ہے یعنی محض ضلع چترال یا وادی چترال کو اولیت دی گئی ہے لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ سکیم بھی بلین ٹری سے 10 بلین ٹری اور صحت کارڈ کی طرح پورے صوبے تک پھیل جائے اور یوں موسمیاتی تبدیلی کے گھمبیر خطرے کا راستہ روکنے کے ساتھ ساتھ غرباءکا علاج اور تعلیم بھی مفت ہو کر فلاحی ریاست کی مثال قائم ہو۔ اسلام کی رو سے حصول علم ہر مرد و زن کیلئے یکساں طور پر فرض ہے لیکن جب ایک عام آدمی اس فریضے کی بجاآوری سے قاصر ہو تو ایسے میں یہ ذمہ داری ریاست یعنی
حکومت پر ڈال دی گئی ہے جو کہ دستور پاکستان سے واضح ہے۔ تعلیم کارڈ کے اجراءکی ابتداءچترالی بھائیوں بالخصوص غرباءو مساکین کو مبارک ہو‘ ویسے چترالی لوگ میرے نزدیک ہر لحاظ سے قابل تعریف واقع ہوئے ہیں‘ مطلب محنت‘ حب الوطنی‘ خوش اخلاقی اور امن دوستی کے اوصاف ہر چترالی کا خاصہ بن چکے ہیں یعنی یہ ان کی شناخت کے خدوخال ہیں۔ قدیم درسگاہ جامعہ پشاور میں بھی چترالیوں کی خدمات اظہر من الشمس ہیں چاہے تدریس کا شعبہ ہو یا خدمت گزاری کے دوسرے کام ہوں چترال کا پلہ ہمیشہ بھاری ثابت ہوا۔ چترال میں بھی کئی ایک کالجز اور سکول کے ساتھ ساتھ ایک یونیورسٹی یا کیمپس بھی قائم ہے جس کے ابتدائی پراجیکٹ ڈائریکٹر اور انچارج وائس چانسلر کی خدمات بھی پشاور یونیورسٹی شعبہ اردو کے ہمارے ایک دوست پروفیسر بادشاہ منیر بخاری نے انجام دیں جبکہ بعد ازاں تین سالہ مدت کیلئے ہمارے ایک اور ملنسار اور کہنہ مشق دوست زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر ظاہر شاہ کو خدمات کا موقع دیا گیا‘ صوبے کے دوسرے
علاقوں کے غرباءو مساکین طلباءو طالبات بڑی بے چینی سے منتظر ہیں کہ تعلیم کارڈ کا اجراءکب تک وسیع ہو کر پورے صوبے تک پھیل جائے گا؟ ایسا نہ ہو کہ یہ منصوبہ بھی شمالی وزیرستان میرانشاہ کے پیر روخان انسٹیٹیوٹ آف ماڈرن سائنسز کی طرح ثابت ہو جس کی ڈائریکٹر شپ کیلئے جب پشاور یونیورسٹی کے ہمارے چترال کے دوست ڈاکٹر جمیل احمد چترالی کو مدعو کیا گیا تو ہم جیسے بہت سارے دوست اس حق میں نہیں تھے کہ پروفیسر جمیل اس منصب سے جڑی خدمات کی انجام دہی کیلئے میرانشاہ منتقل ہوں اور یوں خدانخواستہ جامعہ پشاور اور بہی خواہ دونوں ایک محنتی و قابل پروفیسر اور ملنسار و ہمدرد دوست سے محروم ہو جائیں۔ بہرکیف یونیورسٹی اور دوست دونوں محرومی سے محفوظ رہے اور جمیل چترالی کبھی پشاور اور کبھی میرانشاہ میں ایک سال تک خدمات کی انجام دہی کے بعد واپس پشاور یونیورسٹی آ گئے۔ ویسے سنجیدہ‘ معاملہ فہم اور تعلیم دوست لوگوں کی رائے تو یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچنے کے لئے اقوام متحدہ کے اس کنونشن کو اگر عملی جامہ پہنایا جائے کہ ہر ملک کا 25 فیصد رقبہ کھیت کلیان‘ ہریالی‘ زراعت‘ باغات اور جنگلات کیلئے مختص ہو اور ساتھ ہی صحت اور تعلیم کو حقیقی طور پر اولین ترجیحات میں شامل کر کے اس کا بجٹ دوگنا کیا جائے تو پھر کسی کارڈ کے اجراءکی ضرورت نہیں پڑے گی‘ بصورت دیگر ان تینوں شعبوں کے زخم اتنے گہرے ہو گئے ہیں کہ بہ آسانی مندمل ہونا ممکن نہیں۔