اسلام آباد: موسیقی کے بے تاج بادشاہ استاد نصرت فتح علی خان کو دنیا چھوڑے 27 برس گزر گئے۔ نصرت فتح علی خان نے عارفانہ کلام، گیتوں، غزلوں اور قوالیوں سے دنیا کو اپنا گرویدہ بنایا۔
استاد نصرت فتح علی خان عظیم پاکستانی قوال، موسیقار اور گلوگار تھے۔ وہ فیصل آباد میں قوالی سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے میں 13 اکتوبر 1948 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد فتح علی خان اور تایا مبارک علی خان اپنے وقت کے مشہور قوال تھے۔
نصرت فتح علی خان نے کلاسیکل موسیقی کو ایک نیا رنگ دیا۔ انہوں نے اس کو جدید میوزک کے منفرد انداز میں کچھ اس طرح پیش کیا کہ ان کے گانے ہر عمر کے لوگوں میں مقبول ہوئے۔
موسیقی کے بےتاج بادشاہ نے صوفی گلوکاری کو بھی نئے انداز سے پیش کیا۔ جس کے باعث ان کے گائے کلام نہ صرف پاکستان میں بلکہ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک میں بھی سنے گئے۔
انہوں نے کئی بین الاقوامی فلموں میں میوزک بھی دیا۔ 1995 میں بننے والی ہالی ووڈ کی فلم ڈیڈ مین واکنگ میں ان کا ساونڈ ٹریک شامل تھا۔
موسیقی کی دنیا میں نئے انداز اپنانے اور قوالی کو مشرق سے مغرب تک مقبول بنانے پر استاد نصرت فتح علی خان کو کئی اعزازت سے بھی نواز گیا۔ 1987 میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس (تمغہ حسن کارکردگی) سے نواز گیا۔
پاکستان فلم انڈسٹری اور موسیقی کی دنیا میں کی گئی خدمات پر انہیں نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ان کو یونیسکو کی جانب سے دیے جانے والے موسیقی کے انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
استاد نصرت فتح علی خان کی قوالی ’دم مست قلندر علی علی‘ کو عالمی مقبولیت حاصل ہے۔ جس نے نصرت فتح علی خان کی عالمی شہرت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔
میری زندگی ہے تو، کسی دا یار نا وچھڑے، تم اک گورکھ دھندا ہو، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، دل لگی، اللہ ھو اور وہی خدا ہے سمیت کئی قوالیاں آج بھی لیجنڈری گلوکار کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔
نصرت فتح علی خان گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔ 48 سال کی عمر میں 16 اگست 1997 کو دنیا سے کوچ کر گئے۔