اگرچہ آثار اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ سابق وائس چانسلر کی کابینہ بحال ہونیوالی ہے تاہم اس وقت کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی‘ پشاور یونیورسٹی میں انتظامیہ کیڈر کی30 سے زائد پوسٹیں عرصہ سے خالی پڑی ہیں جبکہ ٹیچنگ کیڈر یعنی اساتذہ کی تعداد جو کہ ابھی کچھ عرصہ قبل تک سات سو کے قریب تھی‘ اس وقت پانچ سو سے کچھ اوپر بتائی جاتی ہے‘ البتہ نان ٹیچنگ معاون ملازمین اور کلریکل سٹاف کے بارے میں دو ٹوک بات اس لئے بھی نہیں کہی جا سکتی کہ اگر کوئی معاملہ فہم کہے کہ بھئی معلوم ہونا چاہئے کہ جس دور میں صوبے میں محض چار یونیورسٹیاں قائم تھیں اور پشاور یونیورسٹی بشمول فاٹا پورے صوبے کی واحد جامعہ تھی‘اس وقت ملازمین کی تعداد کتنی تھی اور اب جبکہ صوبے میں یونیورسٹیوں کی تعداد32تک پہنچ گئی ہے اور تاریخی قدیم درسگاہ یونیورسٹی کیمپس کے روڈ نمبر2تک محدود رہ گئی ہے اب یہ تعداد کتنی ہے؟ یہ سوال اٹھانا”سچی کڑوی“ کے مصداق یقیناً ایک تلخ بات ہوگی اور ایسی تلخی بلاشبہ معاون کلریکل اور دوسرے ملازمین کیلئے قابل برداشت نہ ہو گی‘ لہٰذا نظر انداز کرنا ہی بہتر ہوگا‘دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ٹیچنگ اورنان ٹیچنگ کیڈر کی آسامیاں اس لئے خالی پڑی ہیں کہ بات پیسے کی ہے اور پیسہ تو بالکل غائب ہوگیا ہے‘ یعنی تعلیم کیلئے پیسہ ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے‘ اس لئے ایک بار پھر خدشہ ہے کہ پرانی جامعات کے ملازمین حسب سابق امسال بھی تنخواہوں میں ہونیوالے بجٹ اضافے کیلئے سڑک پر بیٹھ جائیں‘ فرق صرف یہ ہوگا کہ اس بار ریٹائرڈ ملازمین بھی ان کے ساتھ ساتھ رہیں گے کیونکہ وہ لوگ توگزشتہ سال کے اضافے کے پورے 9مہینے کے بقایا جات سے تاحال محروم ہیں اور آئے روز پشاور یونیورسٹی میں اکٹھے ہوکر احتجاجی نشستیں کررہے ہیں‘ ان کا مسئلہ صرف یہ نہیں بلکہ بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین تو ابھی تک گریجویٹی کی بڑی رقم سے بھی محروم ہیں یہ
مسئلہ گزشتہ ایک عشرے سے مسلسل گھمبیر ہوتا جارہا ہے کیونکہ حکومتی گرانٹ سے تو ملازمین کی تنخواہیں بھی ادا نہیں ہو سکتیں تو پنشن اور پھر گریجویٹی کہاں سے ادا ہوگی؟خیبرپختونخوا کے ایک مستعد اور بہترین منتظم وائس چانسلر نے مسلسل بارہ سال تک ہر فورم پر حتی الوسع کوشش کی کہ تعلیم کا بجٹ ملک کے کل بجٹ کا چار فیصد متعین ہو مگر ان کی یہ بات کسی فورم‘کسی سٹیج پر بھی نہیں سنی گئی اور یوں انجینئر سید امتیاز حسین گیلانی نے چار فیصد تعلیمی بجٹ کے سلوگن کے جو بورڈ اور کتبے بنائے تھے وہ اب انجینئرنگ یونیورسٹی کے کسی سٹور یا گودام میں پڑے ہونگے‘ ہرچند کہ یونیورسٹیوں میں یونین بازی کی سیاست کرنے والوں کے نزدیک ایڈمن کیڈر کی پوسٹوں پر اساتذہ کی تعیناتی جامعات ایکٹ کی خلاف ورزی ہوگی مگر پہلی بات تو یہ ہے کہ ایکٹ ہے کہاں؟ تو اسے ڈھونڈ کر لے آئیں تو عملدرآمد بعد کی بات ہوگی‘ ہاں اور اس ضمن میں سنجیدہ بات تو یہ ہے کہ اگر ایکٹ کی پاسداری ہو جائے اور ساتھ ہی تمام تر خالی آسامیاں بھی پر ہو جائیں تو یونیورسٹی چلے گی کیسے؟ تنخواہوں‘ مراعات‘ دفاتر اور رہائش سمیت دوسرے لوازمات کیلئے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے؟ کیونکہ پیسے دینے والوں کی اس تلقین میں تو ابھی تک کوئی تبدیلی سامنے نہیں آئی کہ یونیورسٹیاں کفایت شعاری یعنی بچت کی راہ اپنائیں اور ساتھ ہی اپنے اخراجات کیلئے اپنے ذرائع آمدن پیدا کریں اب المیہ تو یہ ہے کہ پروٹوکول‘ نمودونمائش اور کھیل کود کی پذیرائی پر تو کروڑوں اربوں نچھاور کر سکتے ہیں لیکن جب بات تعلیم کی آجاتی ہے تو یکسر مفلس بن جاتے ہیں‘ جامعہ پشاور کی ابتر انتظامی حالت بھی بحران کی نشاندہی کیلئے کافی ہے‘جہاں پر انتظام وانصرام اور رٹ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی‘ مطلب یونیورسٹی ایک پرہجوم مارکیٹ اور جنرل بس سٹینڈ کا منظر پیش کر رہی ہے مگر سکیورٹی گارڈ کی70 پوسٹوں پر حکومتی پابندی اٹھائے جانے کے باوجود محض اس لئے بھرتی لٹکی ہوئی ہے کہ اخراجات کیلئے پیسہ نہیں‘ایسے میں اب یہ دیکھنا ہے کہ تعلیم اور تعلیمی اداروں کی اس ابتر حالت کے ہوتے ہوئے ہمارے کون سے مسائل حل ہونگے؟