پارلیمانی اکاؤنٹیبلٹی فیسیلیٹیشن سیل کا قیام : ارکان پارلیمنٹ کے تحفظ کیلئے نیب نے نئے ایس او پیز جاری کر دیئے

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے تاجروں اور بیوروکریٹس کو ماضی جیسی ہراسانی سے بچانے کے بعد بیورو نے اب ارکان قومی اسمبلی، سینیٹرز اور ارکان صوبائی اسمبلی سمیت تمام ارکان پارلیمنٹ کو بدعنوانی کے غیر سنجیدہ کیسز میں ہراساں کرنے، اسکینڈلائز کرنے اور من مانی گرفتاری سے بچانے کیلئے نئے ایس او پیز جاری کیے ہیں۔ 

ارکان پارلیمنٹ کیخلاف بدعنوانی کے مقدمات کو منصفانہ انداز سے نمٹانے کو یقینی بنانے کیلئے پارلیمنٹ کے نگہبان (چیئرمین سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز) کی جانب سے قریب سے نگرانی کا طریقہ کار متعارف کرایا گیا ہے تاکہ ایسے ارکان پارلیمنٹ کے حقوق اور سہولتوں کی حفاظت کی جاسکے جن کیخلاف کوئی تحقیقات ہو رہی ہوں۔ 

ارکان پارلیمنٹ کیخلاف بدنیتی پر مبنی، فضول، گمنام اور فرضی شکایات کی حوصلہ شکنی کیلئے پارلیمانی اکاؤنٹیبلٹی فیسیلیٹیشن سیل (پی اے ایف سی) قائم کیا جا رہا ہے۔ نئے ایس او پیز کے تحت ارکان پارلیمنٹ کیخلاف نیب کو موصول ہونے والی تمام شکایات کو مزید کارروائی سے قبل چیئرمین نیب کے نوٹس میں فوری طور پر لایا جائے گا۔ 

پہلی صورت میں، چیئرمین نیب کی منظوری سے یہ شکایت اِن پٹ اور رائے کے حصول کیلئے چیئرمین سینیٹ یا قومی اسمبلی یا متعلقہ صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کو بھیجی جائے گی۔ شکایت کو بہر حال خفیہ رکھا جائے گا۔ چیئرمین سینیٹ، قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے اسپیکر (معاملے کی نوعیت کے لحاظ سے) ابتدائی تحقیقات کے بعد چار ہفتوں میں رپورٹ کے ذریعے اپنے نتائج نیب ہیڈ کوارٹر کو بھیجیں گے۔ 

رپورٹ پر غور و خوض کے بعد چیئرمین نیب کی جانب سے مزید لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ شکایت کی تصدیق یا انکوائری کے مرحلے پر معلومات شیئر کرنے کیلئے مدعا علیہ رکن پارلیمنٹ کے ساتھ تمام خط و کتابت پی اے ایف سی کے توسط سے ہوگی۔ مدعا علیہ رکن پارلیمنٹ کی شناخت کو شکایات کی تصدیق اور انکوائری کے مرحلے تک خفیہ رکھا جائے گا تاکہ اس کی ساکھ کو ناجائز نقصان سے بچایا جا سکے۔ 

نیب کی جانب سے کمپلینٹ ویریفکیشن (شکایت کی تصدیق) اور انکوائری کے مرحلے کے دوران پارلیمنٹ کے کسی رکن کو طلب نہیں کیا جائے گا۔ حالات دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہو کہ انصاف کی خاطر یہ حاضری ضروری ہے تو یہ طلب کیے جانے سے قبل چیئرمین نیب کی واضح منظوری ضروری ہوگی۔

پارلیمنٹ کے رکن کیخلاف کسی بھی قسم کی زبردستی کارروائی بشمول ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام شامل کرنا وغیرہ جیسے متعلقہ اقدامات سے اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کے فوری مطلع کیا جائے گا۔ نیب کے ذریعے کوئی انکوائری کرانا مقصود ہو تو چیئرمین یا اسپیکر اپنی مرضی سے کسی رکن پارلیمنٹ کیخلاف شکایت بھیج سکتے ہیں۔ 

نیب اور سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں پوائنٹ آف فیسیلیٹیشن سیل قائم کیا جائے گا۔ نیب کی طرف سے ڈائریکٹر کمپلینٹ سیل فوکل پرسن کے طور پر کام کرے گا جبکہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے معاملے میں ایسا افسر جو 21؍ گریڈ سے کم نہ ہو اور اور صوبائی اسمبلیوں کے معاملے میں ایسا افسر جو 20؍ گریڈ سے کم نہ ہو، کو متعلقہ ایوان کے اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کی جانب سے بطور فوکل پرسن نامزد کیا جائے گا۔ 

اس پیشرفت سے قبل، نیب کاروباری افراد اور بیوروکریٹس کیلئے بھی ایسے ہی ایس او پیز جاری کر چکا ہے۔ سرکاری ملازمین کیخلاف شکایات کی صورت میں درج ذیل ہدایات جاری کی گئی ہیں جن پر سختی سے عمل کی تلقین کی گئی ہے: ۱) سرکاری ملازمین کیخلاف گمنام شکایات پر غور نہیں کیا جائے گا، ۲) شکایت کی تصدیق کے عمل کے دوران سرکاری اہلکاروں کی شناخت کو صیغۂ راز میں رکھا جائے گا۔

۳) گریڈ 19؍ تک کے افسران کیخلاف شکایات پر کارروائی کا اختیار ریجنل ڈائریکٹر جنرلز کو دیا گیا ہے جبکہ گریڈ 20؍ اور اس سے بالا گریڈ کے افسران کیخلاف شکایات پر کارروائی کیلئے چیئرمین نیب کی منظوری درکار ہوگی، ۴) شکایت کی تصدیق اور انکوائری کے مرحلے کے دوران سرکاری ملازمین کو نیب کے احاطے میں ذاتی حیثیت میں طلب نہیں کیا جائے گا۔

 متعلقہ صوبائی چیف سیکریٹریز کی مشاورت سے ریجنل ڈائریکٹر جنرلز متعلقہ سول سیکرٹریٹ میں اکاؤنٹبلٹی فیسلی ٹیشن سیلز تمام خط و کتابت اور معلومات کا اشتراک اے ایف سیز کے ذریعے کیا جائے گا۔ 

تاجروں کیخلاف شکایات پر غور کیلئے ایس او پیز میں لکھا ہے: ۱) تاجروں کیخلاف کسی گمنام شکایت پر غور نہیں کیا جائے گا، ۲) تاجروں کی شناخت کو سختی سے صیغۂ راز میں رکھا جائے گا، ۳) شکایت کی تصدیق کے مرحلے کے دوران کسی تاجر کو نیب احاطے میں طلب نہیں کیا جائے گا۔

 باوقار انداز سے تحقیقات کیلئے نیب کے ریجنل آفس میں ایک علیحدہ بزنس فیسیلیٹیشن سیل (بی ایف سی) قائم کیا جائے گا۔ بی ایف سی متعلقہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نمائندے، ریئلٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندے اور دیگر کاروباری تنظیموں کے نمائندوں پر مشتمل ہوگی