کھلا ہے ہاتھ زندگی کا بہت

 شعر و ادب کی دنیا میں کبھی کبھی معتبر اور مستندزعما کوئی ایسا حکم نامہ جاری کر دیتے ہیں جو نہ صرف اپنے دور سے تائید حاصل کر لیتا ہے بلکہ آنے والا زمانہ بھی اس کی اپنے اپنے طور پر توثیق کر تا رہتا ہے، ایسی ہی ایک تحریک ادب میں مقصدیت کی چھاپ کو اہمیت اور اولیت دینے کے حوالے سے بھی چلی اور چل رہی ہے، اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ادب اپنے دور کا ترجمان اور عکاس ہوتا ہے،اس لئے زندگی کی تمام تر تلخیوں کے ذائقے شعر و ادب میں محسوس ہونے چا ہئیں۔مگر شعر میں شاعر کی اپنی ذاتی وارداتوں اور جذباتی تجربوں سے یکلخت منہ بھی تو نہیں موڑا جاسکتا، مجھے یاد ہے کہ ایک بار پاکستان ٹیلی وژن کے اپنے دور میں سائنس میگزین سے شہرت پانے والے لئیق احمد نے یوم پاکستان کے حوالے سے ترتیب دئیے جانے والے شو میں پروین شاکر سے ان کے شعر پر بات کرتے ہوئے یہ بھی پو چھا تھا کہ”آپ اپنے لوگوں کو اپنی شاعر ی میں کیا پیغام دینا چاہتی ہیں“؟ تو پروین شاکر نے کہا تھا کہ میں شعر کہتی ہوں جو دل پہ گزرتی ہے اسے شعر میں ڈھال لیتی ہوں،پیغام کیا دینا“ یہ ایک عمدہ بیان تھا۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ شاعر کو شعر کہنا چاہئے‘ ہاں اگر وہ شعر کسی سطح پر جا کر کسی کے لئے کوئی پیغام بنتا ہے تو بھلے سے بن جائے، دل پہ گزرنے والی واردات کو پروین شاکر نے جس طرح شعر کہااور وہ شعر جس طرح دلوں میں ترازو ہوا سب جانتے ہیں‘ اس لئے جب میں تانیثی شعر و ادب کے اطراف میں سانس لیتا ہوں مجھے ادب کی رومانوی تحریک اپنی طرف کھینچے رکھتی ہے، اور جذباتی ا ظہاریہ کو شعری اعتبار دینے والی اس زنجیر کی تازہ کڑی ایک تازہ کار شاعرہ عشرت بتول کاشعر ی مجموعہ ”ارتباط“ ہے‘ میں جب ارتباط کی سیر کونکلا تو کئی حوالوں سے میرے لئے یہ سفر حیرت کا سفر یوں بنا کہ عشرت بتول نے اپنے شعر کی جو فکری تصویر بنائی ہے وہ بولتی ہے‘ بات کرتی ہے‘ شعر پڑھتے ہوئے یہی لگتا ہے کوئی کسی سے دل کی بات کر رہا ہے،کوئی کسی کو اپنا ہمراز بنا رہا ہے، اپنی جذباتی کیفیات کو شعر میں اس لئے تصور کر رہا ہے کہ شعراپنا تعارف خود کرائے، شعر یہ بھی بتائے کہ مجھے اپنی زندگی کو پورے سانسوں سے جینے والی اْس خالق نے تخلیق کیا ہے جو پورے اعتماد سے کہتی ہے
 کہہ نہ پائے حکایت جاں سوز
 ہاں مگر شاعری سناتے ہیں 
پروین شاکر نے بھی یہی کہا تھا کہ ”میں شعر کہتی ہوں“ میں بھی یہی کہتا ہوں شاعر کو شعر کہنا چاہئے، یہ جو ”ارتباط“ کی سیر کو میں نے حیرتوں کے سفر سے تعبیر کیا اس کے کئی ایک حوالے ہیں جیسے آج نئے شعرکی جس فضا کا ہم تجربہ کر رہے ہیں اس میں شعور ی کوشش سے ایسے لفظوں کو برتا جارہا ہے جن لفظوں کی بلند آہنگی نئی حسیات سے قطعاً لگا نہیں کھاتی اورشاید اسی لئے منیر نیازی نے کہا ہے کہ ’بڑا لفظ چھوٹے لکھاری کو کھا جاتا ہے‘ اس کے برعکس میں دیکھتا ہوں کہ آج کی اسی شعری فضا میں عشرت بتول جب اپنا شعر ہواؤں کے سپرد کرتی ہے تو اسے لفظوں کی نہیں جذبوں کی سان چڑھاتی ہے‘ اس کی بڑی مثال اس کی چھوٹی بحر کی ساری غزلیں ہیں جو دل سے نکلتے ہی دل کو کہیں اندر سے چھو جاتی ہیں، کم لفظ بڑی کہانی سنایا کرتے ہیں،پڑھتے جائیے شعر پرت پرت کھلتا جائے گا، 
 فقیر تو دعا کرے.... دعا کرو دعا لگے
یہ ہے شعر کا وہ جادو جو آپ کو لفظوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکانے کی بجائے جہان معانی کی اور کھینچ لے جاتا ہے۔ غیر محسوس طریقے سے آپ کے ساتھ ہو لیتا ہے اور آپ اپنے کانوں میں روز و شب یہی سرگوشی کرتے رہتے ہیں دعا کرو، دعا لگے، اور یوں آپ عشرت بتول کے کرافٹ کے قائل ہو جاتے ہیں، اور پھر چند لفظوں سے جادو جگاتے ہوئے کتنے ہی شعر آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے آپ کو اس جواں فکر اور تازہ کار شاعرہ کے فکری منظر نامہ سے جوڑ دیتے ہیں، 
 ایک دم کب سمجھ میں آتی ہے
 بات تو دھیرے دھیرے کھلتی ہے
 رسول حمزہ توف نے نئے لکھنے والوں سے کہا ہے کہ لکھنے کے لئے موضوع مت مانگو ہو سکے تو اپنے لئے رب سے آنکھیں مانگو‘ کون جانے کہ عشرت بتول نے قبولیت کے کن لمحوں میں اپنے رب سے کیا دعا مانگی کہ قدرت نے اسے دیکھنے والی اوربھتیری دور تک دیکھنے والی بیدار آنکھ ودیعت کردی۔ اور شاعر کے لئے بیداری ہی سب سے بڑا انعام ہے، اور یہی انعام ایسے زندہ شعر کہلواتا ہے
 دل جو تڑپا تو کھلا خواب دریچہ
 جب لگی آنکھ تو بیداریوں کے ڈھنگ آئے
 اور مجھے لگتا ہے کہ عشرت بتول نے یہ نکتہ بھی سمجھ لیا ہے کہ شاعر کے لئے ہوشیاری نہیں بیداری ضروری ہے،ہوشیاری شعر و ادب کی قلمرو میں سطحی اور ایک کمتر درجے کی چیز گردانی جاتی ہے یہ جو میں نے لفظوں کی بلند آہنگی کی بات کی ہے وہ الفاظ بھی شاعر کی فنی چابکدستی کی بجائے اس کی ہوشیاری دکھانے کی چغلی کھا رہے ہوتے ہیں، ڈ ی ایچ لارنس درست کہتاہے کہ جب کسی تخلیق کے معانی طے ہو جاتے ہیں وہ مر جاتی ہے، شعر تو پوری کہانی سناتا ہی نہیں اس کو لفظوں سے آگے تو پڑھنے والا لے کر جاتا ہے،ارتباط کا شعر بھی پڑھتے ہوئے آپ کو لگے گا کہ جیسے کوئی کسی سے مکالمہ کر رہا ہے بات کر رہا ہے، ارتباط کی دنیا میں بات سرگوشیوں میں ہوتی نظر آتی ہے، غزلیں تو ایک رہیں ”ارتباط“ کی نظمیں بھی اس مختصر مکالمہ کا تسلسل بھی ہے اور لفظوں پر جذبوں کو فوقیت کا اظہاریہ بھی ہے،اور جاننے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی کے احساس کو جینے کی اذیت ناک مشق سے لے کر سرشا ر ہونے کے سکھ تک جتنے ہفت خواں سر کرنے پڑتے ہیں اس کے لئے ”رستم“ کا جگرا چاہئے، میں نے کہا نا کہ یہ سب کھیل ودیعت کے ہیں قدرت کی طرف سے عطا کردہ توفیق کے ہیں،۔سچی بات تو یہ ہے کہ عشرت بتول کی ”ارتباط“ میں کوئی مصرع ’اکہرا‘ نہیں،کوئی شعر ’یک رخا‘ نہیں اور کوئی لفظ ایسا نہیں جو ”پرزم“ کی طرح معانی کو ست رنگا نہ بنا رہا ہو۔ کیونکہ شعر بننے کا ان کا اپنا ایک ڈکشن ہے،کائنات میں چاروں اور پھیلی اشیاء کو دیکھنے والی اپنی ہی آنکھ ہے۔
 ہمیں یہ خرچ ہی نہ کر ڈالے
 کھلا ہے ہاتھ زندگی کا بہت