عجب کیا ہے جو ان بچوں میں سر سیّدؔ نکل آئے

 لندن کے بعد برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر برمنگھم ہے جو ویسٹ مڈ لینڈز کاؤنٹی میں ہے اور اس شہر میں رہنے والوں کو سہولت یہ ہے کہ لندن سمیت بہت سے چھوٹے بڑے قصبے اور شہر یہاں سے صرف دو تین گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہیں اس لئے اب کے بہت سے شہروں کی ادبی تقریبات اور نجی دعوتوں کے لئے برخوردار ابتسام علی سیّد اپنی مصروفیات کے باوجودبروقت مجھے پہنچاتا رہا،گزشتہ برس جب میں برطانیہ کے ساحلی شہر یار متھ میں تھا تو پشاور کے ایک برخوردار دوست محمد جمیل نے فون پر رابطہ کیا تھا وہ دراصل جواں سال وجوان فکر شاعر ذکریا امرؔ کے دوستوں میں سے تھا ذکریا امرؔ کے سارے دوست بہت عمدہ ادبی ذوق رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ ادبی محافل میں بھی شریک ہوتے ہیں اور اسی ناتے میری بھی ان سے ملاقاتیں ہیں، گزشتہ برس محمد جمیل سے بوجوہ ملاقات نہیں ہو پائی ان میں سے شاید ایک وجہ پانچ چھے گھنٹے کی دوری بھی تھی تاہم میرے جانے کے بعد ابتسام علی سیّد کے ساتھ وہ نہ صرف رابطہ میں رہا بلکہ ان کو اپنے ہاں مدعو بھی کیا، اب کے اس نے دوبارہ رابطہ کیا وہ برمنگھم سے کوئی ڈیڑھ پونے دو گھنٹہ کی ڈرائیو پر کیمرج شائر کاؤنٹی کے ٹاؤن ”پیٹر بورو“ میں رہتا ہے، یہ قصبہ معروف کیمرج یونیورسٹی سے کچھ ہی فاصلہ پر ہے،پیٹربورو پہنچنے پر پھولوں کے خوبصورت گلدستہ بدست محمد جمیل کے بچوں نے استقبال کیا محمد جمیل کچھ ہی دن پہلے پشاور سے ہو کر آیا تھا اس لئے پشاور کے دوستوں کے حوالہ سے کچھ دیرگفتگو ہوتی رہی اور پھر اس نے کہا کہ باہر چلتے ہیں مجھے ابتسام نے اس قصبے کے کیتھڈرل (چرچ)کے بارے میں پہلے ہی سے بتایا ہواتھا کہ دیکھنے لائق معبد ہے، خیال تھا کہ وہیں چلیں گے لیکن محمد جمیل نے گاڑی موٹر وے پر ڈا ل دی اور ہم پیٹر بورو سے باہر نکل آئے معلوم ہوا کہ ہماری منزل کم وبیش ایک گھنٹہ کے فاصلہ پر برطانیہ کی معروف اور تاریخی یونیورسٹی ”کیمرج“ ہے، دنیا بھر میں مشہور یہ قدیم یونیورسٹی، دریائے کیم کے کنارے ایستادہ ہے اسی دریا کی مناسبت سے کیم کے پل یعنی کیم کے برج کے نام سے اسے کیمبرج کہا گیا ہے، اس کا سب سے پہلا کالج ’پیٹر ہاؤس کالج‘ 1842ء میں شروع ہوا تھا، اب تو خیر یہ قدیم یونیورسٹی ایک بہت بڑے شہر کا روپ دھار چکی ہے، میوزیم، کالجزاور مختلف شعبہ ہائے تعلیم کا ایک جال بچھا ہوا ہے، دنیا کے دوسرے بڑے
 شہروں کی طرح برطانیہ کے شہروں اور قصبوں میں بھی سب سے بڑا مسئلہ پارکنگ کا ہوتا ہے۔ یادش بخیر‘بے بدل شاعر و ادیب و جرنلسٹ اور دوست ِ مہرباں جوہر میر ؔنے کئی دہائیاں امریکا کے شہر نیو یارک میں گزاریں مگر اپنی کار نہیں خریدی انہوں نے معروف کالم نگار و دانشور اور معروف و مقبول ٹی وی پروڈیوسر عتیق احمد صدیقی کے ساتھ مل کر نیو یارک میں حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد رکھی اور انہی دوستوں کی دعوت پر ٹھیک ربع صدی پیشتر (1999ء کے اگست ہی کے موسم میں) پہلی بار عالمی مشاعرہ کے لئے میں امریکا آیا تھا تو جوہر میرؔ مرحوم نے مجھے بتایا کہ جب گھر سے جاب تک آسانی سے ”سب وے“(ٹرین) ملتی ہو تو گاڑی کا روگ کوئی بھی کیوں پالے اور اس پر مستزاد کہ جہاں بھی جاؤ پارکنگ ہی ڈھونڈتے رہ جاو‘ئ باہر کی دنیا کے شہروں اور قصبوں میں گاڑی ہر جگہ پارک نہیں کی جاسکتی اور جہاں جہاں پارکنگ کی اجازت ہے وہاں اس کے ریٹس لکھے ہوتے ہیں جو چار پانچ ڈالرز یا پاؤنڈزسے لے کر دس ڈالرز فی گھنٹہ تک بھی ہوسکتے ہیں‘ صرف یہی نہیں کچھ ایسی پارکنگز بھی ہیں جہاں محض چند گھنٹوں تک ہی گاڑی کھڑی کی جاسکتی ہے بصورت دیگر گھر پر جرمانہ کا چالان پہنچ جاتا ہے اور ہر پارکنگ میں ”خصوصی افراد“ کے لئے جگہ مخصوص ہوتی ہے جہاں ایک ویل چیئرکا سکیچ بنا ہوتا ہے بھلے سے وہ پورا مہینہ خالی پڑی رہے وہاں کوئی اور گاڑی کھڑی نہیں کر سکتا‘یہی حال ہر شہر کی طرح کیمرج یونیورسٹی کا بھی تھا، محمد جمیل نے ہمیں یونیورسٹی کے ’میوزیم آف ذوالوجی‘ کے صدر دروازے پر اتار دیا کہ آپ میوزیم جائیں اور میں کہیں پارکنگ ڈھونڈکر آپ کے پاس آجاتاہوں اور جب وہ واپس آیا تو میں،رفعت علی سید اور ابتسام علی سید نہ جانے کتنی صدیوں کا سفر طے کر چکے تھے، معلوم نہیں کتنے زمانے دیکھ چکے تھے، کب اور کس زمانے میں کون کون سے جانور اور حشرات الارض
 اس زمین پر سانس لے رہے تھے کیسے ان کی نسلیں معدوم ہوئیں کہاں کہاں سے اور کس کس حال میں ان کے ڈھانچے ملے کیا کیا ان پر تحقیق ہوئی اور یہ جانور کیا کیا جسامت رکھتے تھے مانو ایک عجیب سی دنیا میں ہم گھوم رہے تھے، میوزیم سیاحوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جگہ جگہ ٹولیوں میں لوگ کھڑے اپنے اپنے گائیڈز کو سن رہے تھے تفصیلات بیان کی جارہی تھیں تصاویر بنا ئی جا رہی تھیں میوزیم میں داخل ہوتے ہی ایک لمحہ کو مجھے دبستان پشاور کے برخوردار ڈاکٹر ضیغم حسن کا خیال آیا کہ کاش وہ بھی ساتھ ہوتے تو کیا ہی اچھا ہوتا کیو نکہ یہ ان کا ہی شعبہ ہے مجھے اپنا یہ سوچنا اچھا لگا کہ ضیغم حسن ہوتے تو خود بھی انجوائے کرتے ہمیں بھی کچھ سکھادیتے ابھی بالکل بھی جی نہیں بھرا تھا مگر محمد جمیل کا کہنا تھا دیکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی ذوالوجی کے میوزیم سے نکلے تو ایک اور عجائب خانہ میں بھی داخل ہو گئے کتنی ہی دیر ہمارا رابطہ حال سے کٹا رہا اور ہم ماضی کی بھول بھلیوں میں کھوئے رہے۔ ایک اچھے گائیڈ کی طرح محمد جمیل ہماری توجہ کو بھٹکنے نہیں دے رہے تھے، پھر ہم کالجز کی طرف آ گئے، ”یہ ٹرینٹی کالج ہے“ ایک کالج کے گیٹ کے پاس رک کر جمیل نے کہا،میں نے استفساریہ اندازمیں اس کی طرف دیکھا تو اس نے کہا کہ کیمرج کا یہی وہ کالج ہے جہاں علامہ اقبال نے بھی داخلہ لیا تھا۔ میں نے اس پر شکوہ درسگاہ کی طرف دیکھا تو جسم میں ایک جھر جھری سی آئی‘سوچا اس درسگاہ نے کتنے ہی معتبر و مستند لوگوں کو دولت علم سے مالا مال کیا ہو گا، افسوس کہ ہمیں میوزیم میں بہت دیر ہو گئی تھی اور یہاں تک پہنچتے پہنچتے کالج کے اندر جانے کا وقت نکل چکا تھا ہم اس کے صدر دروازے کے قریب کے حصہ تک جاسکتے تھے جہاں ہماری طرح اور بھی کئی لوگ باہر ہی سے کالج کی اندورنی عمارت کی تصویریں لے رہے تھے، کیمرج یونیورسٹی چونکہ اکسفورڈ یونیورسٹی کی طرح انگلستان کی بہت ہی قدیم یونیورسٹی ہے، یہاں سے دنیا بھر کے کتنے طلبہ نے بعد کی زندگی میں اپنے اپنے شعبہ میں بہت بڑا نام اور بے پناہ شہرت پائی یہ کہانی پھر سہی لیکن اس سے مجھے اکوڑہ خٹک کی اپنی پہلی درسگاہ ’مدرسہ تعلیم القران‘ کے گیٹ کے سامنے کی دیوار پر لکھا ہوا ایک شعر یاد آگیاتھا۔
کوئی حالی کوئی شبلی نذیر احمد ؔ نکل آئے
عجب کیا ہے جو ان بچّوں میں سر سیّد نکل آئے