مادر علمی میں تعلیمی ماحول کی بحالی کی مہم

خیبرپختونخوا میں ماضی قریب کے مختلف ادوار کی سیاسی مہربانیوں کی بدولت سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد خیر سے 32 تک پہنچ گئی ہے مگر کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جلد یا قدرے تاخیر سے اس میں مزید اضافہ نہیں ہوگا‘صوبے کی اکثر یونیورسٹیوں میں مجھے بھی جانا نصیب ہوا ہے اس مشاہدے میں کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد اور کوئٹہ کی بعض جامعات بھی شامل ہیں بلکہ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے تو کئی یادیں بھی وابستہ ہیں لیکن ان میں کہیں بھی یہ نہیں دیکھا کہ یونیورسٹی کے اندر کس پرہجوم مارکیٹ یا جنرل بس سٹینڈ کا ماحول قائم ہو‘ رکشوں‘ ٹیکسی‘ پک اینڈ ڈراپ ریس اور سکریچنگ والی گاڑیوں جبکہ مارکیٹوں اور سڑکوں میں تہہ بازاری‘ ریڑھیوں‘ ٹھیلوں‘ سٹالز‘ بھکاریوں‘ہراسمنٹ‘ شوروغل‘ دھوئیں اور ہر نوع کی ہلڑ بازی کی بھرمار ہو اور انتظامیہ اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی‘سال2001ء میں جب مجھے اپنے روزنامہ آج کے بانی چیف ایڈیٹر عبدالواحد یوسفی مرحوم و مغفور نے یونیورسٹی کیمپس میں اپنے ادارے کے نمائندے کی حیثیت سے بھیجا تو اس وقت پورے صوبے یعنی اس وقت کے شمالی مغربی سرحدی صوبہ میں محض چار یونیورسٹیاں تھیں پشاور یونیورسٹی کیمپس سے اس24 سالہ رفاقت کے دوران میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ پگڑی اچھالنے جیسی منفی صحافت سے اپنے آپ کو بچا کے رکھوں کیونکہ تربیت ہی ایسی ہی دی گئی تھی‘ میری ہمیشہ سے کوشش رہی کہ یونیورسٹی میں تعلیمی ماحول قائم اور برقرار ہو لیکن انتظامی غفلت کے سبب یونیورسٹی کیمپس گزشتہ دو عشروں کے دوران تعلیمی ماحول کی خوبیوں سے ایسا محروم ہوگیا کہ ہر بہی خواہ تعلیم دوست شخص اور تعلیم کیساتھ ساتھ تربیت اور اخلاقیات پر یقین رکھنے والے فرد کیلئے ایک صدمے سے کم نہیں ہوگا۔ یہاں پر700 کے قریب اساتذہ بھی موجود ہیں جو کہ آب آہستہ آہستہ کم ہورہے ہیں یہ بات صرف پشاور یونیورسٹی کی حد تک ہے جہاں پر کلاس فور اور کلاس تھری جب تنخواہ میں تاخیر یا کسی کٹوتی کیخلاف نکل آتے ہیں تو پورا سسٹم جام کردیتے ہیں لیکن افسوس کیساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ تعلیمی ماحول کی بربادی کے احساس سے ہمیشہ عاری رہے ہیں بقول اساتذہ کیمپس میں سکیورٹی اور قواعد و ضوابط کی عملداری کیلئے رجسٹری اندراج کے حساب سے ساڑھے تین سو سے زائد پولیس نفری بھی تعینات ہے یہ الگ بات ہے کہ حقیقت میں یہ تعداد سویا ایک سو بیس سے زیادہ نہیں اور ان میں بھی چند ایسے اہلکار ہیں جو کہ باہر کے تھانوں اور اداروں میں ڈیوٹی دینے سے قاصر ہوتے ہیں‘ تعلیمی ماحول کی بربادی کیخلاف جبکہ اصلاح احوال کی نیت سے خبروں اور کالموں پر مشتمل سالہا سال کی مہم چلائی مگر شنوائی اور عملدرآمد سے محروم رہی بلکہ انتظامیہ کے بعض اہلکاروں نے تو تعمیری تنقید کو دشمن سمجھ کر آنکھیں دکھانے پر بھی اتر آئے یہ تو بھلا ہو موجودہ پرووائس چانسلر ڈاکٹر محمد نعیم قاضی کاکہ انہوں نے پروفیسر بادشاہ منیر بخاری جیسے بہترین منتظم اور سریع الحرکت ٹیچر کو ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن کی اضافی ذمہ داریاں سونپ دیں اور وہ اصلاح احوال اور تعلیمی ماحول کی بحالی کا بیڑا اٹھاتے ہوئے مادر علمی سے اڈہ نما بازاری پن کے خاتمے کے عزم کیساتھ میدان عمل میں اتر آئے لیکن قبضہ مافیا کی مختلف کڑیوں کی مخالفت اور ”میں نہ مانوں“ جیسے طرز عمل سے بھی دوچار ہوگئے‘ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ یونیورسٹی اساتذہ‘ نان ٹیچنگ سٹاف اور کیمپس پولیس یونیورسٹی میں حقیقی تعلیمی ماحول کی بحالی میں کس قدر مخلص اور سنجیدہ ہیں اور کس حد تک باچا جی کا ساتھ دینگے اس خدشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی کی طرح اس بار بھی باہر سے سیاسی عناصر بھی اصلاح احوال کی اس جاری مہم کو رکوانے کیلئے کود پڑیں اور اس بات پر بضد ہوں کہ مادر علمی میں گزشتہ دو عشروں سے جنرل بس سٹینڈ اور مچھلی بازار کا جو ماحول مسلط  ہے اسے برقرار رہنے دیں کیونکہ یہ  حالت ان کے ووٹروں کے مفاد اور خواہش کی بات ہے ہر چند کہ یونیورسٹی میں ہر کام کیلئے قواعد و ضوابط اور طریقہ کار موجود ہے مگر مشکل اس وقت سامے آتی ہے جب کسی معاملے میں سیاسی بالخصوص برسراقتدار سیاسی عناصر مدعی بن جائیں اور اپنے آپ کو ہر قاعدے ضابطے کی پاسداری سے بالاتر سمجھیں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی کیمپس کی دوسری جامعات نے اپنے گیٹ بند کرکے اپنے آپ کو محفوظ بنا دیا ہے اور بے ہنگم ٹریفک‘ ہلڑ بازی اور بازاری پن کا سارا بوجھ پشاور یونیورسٹی کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔