تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ 

یادش بخیر گورنمنٹ کالج نوشہرہ ساٹھ کی دہائی کے وسط میں غالباًصوبے کا پہلا کالج تھا جہاں طالبات بھی پڑھتی تھیں اس کی وجہ یہ رہی تھی کہ گرلز کالج پشاور میں تھا یا شاید مردان میں تھا اس لئے اس علاقے کی طالبات کی مشکلات کے پیش نظر بوائز کالج میں طالبات کو بھی داخلہ کی اجازت مل گئی تھی اور جس سال ’کو ایجو کیشن‘ کا آغاز ہوا یہی وہ سیشن تھا جب میں نے بھی نوشہرہ کالج میں داخلہ لیا تھا۔ پہلے سال تو خیر بہت کم طالبات تھیں لیکن ان کی وجہ سے علاقے کے لوگوں کو بہت حوصلہ ملا۔پھر جلد ہی نوشہرہ میں گرلز کالج کی منظوری ملی اور اسّی کی دہائی میں جب میں نوشہرہ کالج میں پڑھا رہا تھا تو ہم تین چار پروفیسرز کو ہدایت ملی کہ سٹاف کی کمی کی وجہ سے آپ گرلز کالج جا کر پڑھائیں۔ نوشہرہ میں لڑکیوں کا لڑکوں کے کالج میں داخل ہونا اور مرد پروفیسرز کا لڑکیوں کے کالج میں پڑھانا اس وقت کے حوالے سے ایک نئی بات ہونے کے باوجود ایک معمول کی سرگرمی تھی۔ پنجاب کے کالجز میں مخلوط تعلیم کا چلن عام تھا لیکن صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا) کی روایات کے پیش نظر گزشتہ کل یہ سب قدرے مشکل تھا۔ مجھے یہ خیال اس وقت آ یا جب میں نے کیمرج یونیورسٹی کی سڑکوں پر خوش گپیوں میں مصرو ف مختلف ممالک کی تیز و طرار طالبات کو اٹھلاتے ہوئے چلتے دیکھا۔ مختلف ٹولیوں میں سڑکوں پر گھومتے پھرتے انہیں دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ اس یونیورسٹی نے وہ شب و روز بھی دیکھے ہیں جب اس کے کالجز میں خواتین کا داخلہ ممنوع تھا‘ برطانیہ کی اس قدیم یونیورسٹی میں کم و بیش پینتیس برس کے بعد لڑکیوں کا پہلا کالج قائم ہوا اور یہی نہیں اس جامعہ میں تو ایک خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے عیسائیوں کو بھی داخلے یا سکالر شپ لینے کی اجازت نہ تھی، گویا ہر علاقے پر ایک ایسا زمانہ گزرا ہواہے جب ان کے راستے میں اپنی روایات حا ئل ہو جایا کرتی تھیں‘ ہمارے معاشرے کی روایات ایک عرصہ تک اگر خواتین لکھاریوں کو اپنی تخلیقات اپنے نام سے چھپوانے میں مانع رہی ہیں تو بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسی ہی صورت حال کبھی تھی۔ چنانچہ ودرنگ ہائٹس اور جین آئر جیسے از حد مقبول اور بڑے ناول لکھنے والی معروف و مقبول انگلش رائٹرز برونٹے سسٹرز (ایملی برونٹے اور شارلٹ برونٹے) اوائل میں مردانہ قلمی ناموں سے اپنی تخلیقات شائع کرتی رہی ہیں، اسی طرح ولیم شیکسپیئر جیسے معتبر و مستند ڈرامہ رائٹر کو خواتین فنکاروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے خود خاتون کردار
 ادا کرنے پڑے تھے اور آپ سے کیا پردہ، اکوڑہ خٹک کے محلہ قریشیان کے ڈرامیٹک کلب کے ایک سٹیج ڈرامہ کے لئے مجھے بھی اس امتحان سے گزرنا پڑااور معروف ٹی وی فنکار اور انگریزی ادبیات کے پروفیسر محمد رفیق کو بھی گورنمنٹ کالج پشاور میں پروفیسر ودود منظر کے ایک سٹیج ڈرامہ کے لئے یہ سوانگ بھرنا پڑا تھا۔کیمرج یونیورسٹی میں ہم ”ٹرینٹی کالج“ کو اندر سے تو نہ دیکھ سکے مگر خوش تھے کہ ہم نے وہ ”در ِ مکتب“ تو دیکھ لیا جہاں نہ صرف علامہ اقبال نے داخلہ لیا تھا بلکہ اس کالج کے طلبہ نے بعد کے زمانے میں اپنے اپنے شعبوں میں بہت شہرت پائی بلکہ کم و بیش ایک سو سو لہ طلبہ نے نوبل ایوارڈ حاصل کیا اور پندرہ طلبہ برطانوی وزرائے اعظم بھی رہے‘البتہ ڈارون (ماہر حیاتیات) کوشش اور خواہش کے باوجود یہاں داخلہ سے محروم رہے، برخوردار محمد جمیل کے پاس بہت سی معلومات تھیں‘کالج کے دروازے کے دائیں جانب فرنٹ لان میں ایک درخت کے پاس لوگ تصاویر بنا رہے تھے، جمیل نے ابتسام علی سیّد سے کہا اس درخت کے پاس تصاویر بنائیں گے، میں نے کہا‘کوئی خاص بات؟ کہنے لگے جی یہ ایک خاص درخت کے بیج سے اگا ہوا درخت ہے، ہم قریب پہنچے تو بہت سے لوگ اپنے ہاتھوں میں سیب لئے درخت کے نیچے کھڑے تھے اور سیب درخت کی طرف اچھال اچھال کراور پھر اسے کیچ کر کے ویڈیوز بنا رہے تھے۔ اوہ! میرے منہ سے نکلا رفعت علی سیّد نے میری طرف حیرت سے دیکھا تو میں نے کہا کہ اسی کالج کے ایک طالب علم کے سر پر اس درخت سے کبھی ایک سیب گرا تھا،ابتسام علی سید نے فوراً کہا ’سر آئزک نیوٹن‘ تو محمد جمیل نے مسکرا کر تائید کی، تو کیا یہ وہی درخت ہے؟ جمیل نے کہا یہ وہی جگہ ہے اور یہ درخت اسی درخت کے بیج سے اگا ہوادرخت ہے،مجھے سکول کا زمانہ یاد آیاجب ہم نیوٹن کے قوانین حرکت یاد کرتے کرتے ہلکان ہو جایا 
کرتے تھے، معلوم نہیں یہ’سیب کہا نی‘ کہاں تک سچ ہے مگر روایت پسند اور روایت پرست انگریز 1666ء عیسوی سے یا شاید پھر 1738ء عیسوی سے (جب پہلی بار والٹیئر نے اپنی کتاب میں یہ واقعہ لکھا تھا) ابھی تک اس درخت سے محبت کرتے ہیں، ہم نے بھی تصاویر بنائیں‘ محمد جمیل ایک اچھا میزبان ہے‘ اس لئے معلومات کے ساتھ ساتھ لذت کام و دہن کا بھی خیال رکھتا ہے‘ ذرا آگے گئے تو آئس کریم کے ٹھیلے کے پاس رک گئے اور پھر ہم نے ایک کالج کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر آئس کریم کھائی‘ ہمیں پیدل گھومتے ہوئے تین گھنٹے ہو چکے تھے‘تھکن تو خیر نہیں تھی مگر پیاس کی وجہ سے آئس کریم نے عجب لطف دیا‘محمد جمیل نے کہا بس تھوڑی سی واک اور ہے پھر چلتے ہیں‘ اب ہم یونیورسٹی کے رہائشی علاقے کی طرف آ گئے تھے‘ یہ ایک چھوٹی سی خوبصورت گلی تھی‘دائیں بائیں چھوٹے چھوٹے رہائشی اپارٹمنٹس سے تھے، گلی کے عین وسط میں پہنچ کر محمد جمیل رک گئے، ”سر یہا ں تصاویر بناتے ہیں“ میں نے کہا وہ تو ہم مسلسل بناتے چلے آ رہے ہیں‘اس گلی میں بھی بنا لیتے‘ ہیں میں نے مسکر ا کر جمیل کی طرف دیکھا جو موبائل کیمرہ سے ویڈیو بنانے کے لئے تیار تھا،کہنے لگا سر اس گھر کے پاس کھڑے ہو کر ذرا اوپر دیکھیں نیم پلیٹ پر کیا لکھا ہواہے؟ میں نے اس چھوٹے سے گھر کے دروازے سے ذرا اوپر بائیں جانب دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا محمد جمیل اور ابتسام علی سیّد دونوں ہی مسکراتے ہوئے ان لمحات کو متحرک تصویروں کے ساتھ محفوظ کر رہے تھے، اس گھر کے دروازے میں داخل ہونے کے لئے دو سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں‘میں خاموشی کے ساتھ ایک سیڑھی پر بیٹھ گیا‘ مجھے لگا مجھے کچھ نہیں کہنا چاہئے کیونکہ میں ایک عجیب ذہنی کیفیت میں داخل ہو چکا تھا مگر محمد جمیل کا اصرار تھا کہ ویڈیو بن رہی ہے کچھ کہا جائے کہ ریکارڈ کر لیں‘مگرمجھے کچھ یاد ہی نہیں آ رہا تھا میرے لئے یہ ایک بڑا سرپرائز تھا کیونکہ اب میں اس گھر کی چوکھٹ پر بیٹھا ہوا تھاجس میں اپنے زمانہ ئ طالب علمی میں شاعر خود آگاہ حکیم الامت علامہ محمد اقبال رہائش پذیررہے تھے مجھے اْس سمے ایسے لگا جیسے ابھی وہ کالج سے واپس آ ئیں گے اور ایک اجنبی کو اپنے گھر کی چوکھٹ پر بیٹھے دیکھ کر حیران ہوں گے اور میں کہہ دوں گا۔
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں 
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ