ان دنوں بھادوں اپنے آخری سانسوں پر ہے اور کچھ دن میں اسوج کا مہینہ شروع ہو جائے گا جو بظاہر تو گرما اور سرما کے اتصال کا مہینہ کہلاتا ہے کیونکہ اس مہینہ میں شمال کی طرف سے ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں جس سے موسم بڑی حد تک معتدل اور سہانا ہو جاتا ہے، لیکن جب یہ ہوائیں رک جاتی ہیں تو بھادوں کی طرح کے حبس کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور دھوپ میں گرمی کے ساتھ ایک چبھن کا احساس بھی ہو تا ہے، شاید اسی لئے مقامی زبانوں میں اس مہینے کی دھوپ کے حوالے سے کئی روزمرہ اور محاورے سننے کو ملتے ہیں جس کی بنا پر اسوج کے مہینے کو کچھ زیادہ خوشگوار نہیں کہا جاسکتا، البتہ یورپ اور امریکہ کی کئی ریاستوں کے اپنے الگ موسم ہیں جو بیک وقت کہیں بہت سرد اور کہیں بہت گرم ہوتے ہیں،لیکن اب خزاں کی آمد آمد ہے اور اس کے بھی اپنے کئی رنگ ڈھنگ ہیں خصوصاًامریکہ کے جن علاقوں میں ستمبر کی بارشوں کے بعد درختوں کے سبز پتے رنگ بدلنا شروع کر دیتے ہیں تو وہ نظارے بھی دیدنی ہوتے ہیں، ہمارے ہاں کھیتوں‘کھلیانوں میں بھی یہ موسم اپنی چھب خوب دکھاتا ہے مگر یہ منظر شہروں میں کم کم ہوتے ہیں‘البتہ گاؤں بھی حد نظر تک پھیلے ہوئے یہ مناظر بہت دل کو لبھاتے ہیں، میں نے ان کالموں میں کہیں یہ اپنا دکھ لکھا تھا کہ نہ جانے کتنے دن ہو گئے میں نے کوئی تتلی دیکھی ہے نہ ہی جگنو کہیں دیکھا ہے‘کیونکہ ا ب احباب نہ سیر گلشن کی کوئی تدبیر کرتے ہیں نہ ہی کنار دریا اب چاندنی راتیں گزرتی ہیں، کنار ِ د ریا سے یاد آیا کہ دریائے سندھ کے کنارے ایستادہ نیسا پور کا جادوئی ماحول ہمیں گاہے گاہے اپنی آغوش میں بھر لیتا ہے، مجھے یاد ہے کہ جب نیسا پور ابھی صرف میجرعامر کے تخیل میں تھا‘تب اسی جگہ شامیانے لگا کر محافل بپا ہوا کرتی تھیں پھر جب جب بھی جانا ہوتا ایک نیامنظر دیکھنے کو ملتا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میجر عامر کے خوابوں سے نکل کر نیسا پور ایک حقیقت کا روپ دھار بیٹھا لیکن اس کے باوجود میجر عامر کا نیسا پور سے رومینس جاری رہا اور ہر بار مجھے وہاں جا کر احساس ہوتا کہ اس کے ماحول میں کوئی تبدیلی آ چکی ہے‘خواہ اس کا تعلق نیسا پور کی عمارت کے حوالے سے ہو یا بیرون ملک سے منگوائے گئے پھولوں اور پودوں کی صورت میں ہو اور پھر ایک بار تو نیساپور کے پہلو میں خوبصورت اور کلر فل حنہ باغ کا اضافہ ہو چکا تھا ْاس بار میرے ساتھ عباس تابش بھی گئے تھے اور نئی عمارت میں شعرو سخن کی محفل خوب جمی تھی۔ ابھی دو ہفتے پہلے
دوست مہرباں میجر محمد عامر سے بات ہو رہی تھی وہ پو چھ رہے تھے کہ خیر سے واپسی کا کیا پروگرام ہے کیونکہ نیسا پور میں ایک اور تبدیلی آپ کے انتظار میں ہے،تبدیلی کی تفصیل پوچھی تو معلوم ہوا کہ نیسا پور کے مغرب میں حنہ باغ سے متصل ایک اور باغ بن چکا ہے جسے ”موسیٰ باغ“ کا نام دیا گیا ہے،کہنے لگے آپ اپنے مشاعرے اور تقریبات مکمل کر کے جب واپس آئیں گے تو موسیٰ باغ کا افتتاح آپ ہی کریں گے‘میں پاکستان میں ہوتا ہوں یا کہیں سفر پر نکلتا ہوں تو کئی ایک دوست ایسے ہیں کہ ان کے ساتھ باہمی رابطوں میں کبھی تعطل نہیں پیدا ہوتا‘ان میں سے کچھ کے ساتھ میرے گھریلو مراسم بھی ہیں‘ پاکستان میں میجر عامر اور امریکہ میں عتیق احمد صدیقی ایسے دوستوں میں سر فہرست ہیں، بہت سے دوست ان کے توسط سے بھی ملے اور ایسے کہ جیسے بچپن سے دوست رہے ہوں، ان میں سے شامیانوں والے نیسا پور کے زمانے کے ایک دوست معروف ترقی پسند کالمسٹ، دانشور اور یاروں کے یار جمیل مرغز بھی تھے، جمیل مرغز کا نام تو سنا تھا مگر تعارف نہ تھا‘پہلی ملاقات کا قصہ بھی عجیب ہے‘ پشاور پریس کلب میں انجمن ترقی پسندمصنفین کا ایک اجلاس ہوا تھا جس میں معروف ترقی پسند دانشور اور کالمسٹ حمید اختر بھی تشریف لائے تھے جب کہ پشاور سے کئی ایک ترقی پسند شعرا و ادبا بشمول معروف و مقبول ترقی پسند شاعر و ادیب سلیم راز اور محسن احسان بھی شریک محفل تھے‘ اس اجلاس میں انجمن کی خیبر پختونخوا کے لئے نئے دوستوں کا چناؤ ہو نا تھا تو جہاں فریدون خان، روخان یوسفزئی اور امجد علی خادم سمیت کچھ دوستوں کو (اب د ل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے) کچھ ذمہ داریاں سونپی گئیں وہیں مجھ ہی چمدان کو صدارت کا منصب تفویض ہوا،معروف ترقی پسند زعما کی وجہ سے اجلاس کو خوب کوریج ملی، اس کے فوراً بعد نیسا پور کی ایک تقریب میں ہم سب بیٹھے تھے کہ ایک صاحب آئے اورنہ جان نہ پہچان مگر بے تکلفی سے میرے پاس آ کر کہنے لگے ”ارے (پشتو میں
انہوں نے ’وے‘ کہا تھا) یہ ہماری ساری عمر کی قربانیاں رائیگاں چلی گئیں اور ترقی پسندوں کے صوبائی صدر آپ بن بیٹھے“ میں نے پریشانی کے عالم میں میجر عامر کی طرف دیکھا تو وہ اور قیصربٹ ہنس رہے تھے ان صاحب نے بھی قہقہہ لگا کر مجھے گلے لگا تے ہوئے کہا ”ناصر علی سیّد! میں جمیل مرغز ہوں“ پھر اس کے بعد توجیسے یک جان و سہ قالب والی دوستی ہوگئی یعنی میجر عامر کے ساتھ ساتھ ان سے بھی ملاقاتوں کے علاوہ ٹیلی فون پر رابطہ بحال رہا‘ نیسا پور کی کوئی بھی تقریب ان کی بنا ادھوری اور پھیکی رہتی‘یہ ہمیشہ قدرے تاخیر سے شریک ہوتے، مجھے اور سلیم صافی کو شدت سے ان کا انتظار رہتا،کیونکہ ابھی بیٹھے بھی نہ ہوتے کہ قیصر بٹ جی کے ساتھ ان کی وہ نوک جھونک شروع ہوتی کہ بیان سے باہر ہے، ہم بھی ان کو اکساتے رہتے تھے،میجر عامر جب دیکھتے کہ قیصر بٹ جی ناراض ہونے والے ہیں تو وہ اپنے ایک مصاحب ِ خاص نور زادہ کے حوالے سے جمیل مرغز کے خلاف رواں ہو جاتے جس پر ایسے قہقہے پڑتے کہ نیسا پور کے درخت بھی جھومنے لگتے، ایک دن ناراضی کے لہجے میں کہنے لگے کہ یہ سچ ہے کہ مجھے آپ کی طرح یا میجر عامر کی طرح شعر یاد نہیں رہتے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مجھے شاعری سے شغف نہیں یا شامیں مجھے فریب نہیں دیتیں، میں نے کہا میں سمجھا نہیں، کہنے لگے آپ کے شعری مجموعہ ”شامیں فریب دیتی ہیں“ پر سب دوستوں نے کالم باندھے مگر مجھے تو آپ نے کتاب ہی نہیں دی میں نے کہا کیسے ممکن ہے کسی دوست کو آپ تک پہنچانے کو کہا ہو گاشاید اس نے نہیں پہنچائی بہر حال دوسرے ہی دن کتاب ان تک پہنچ گئی اور انہوں نے اس پر ایک بہت عمدہ تبصرہ اپنے کالم میں لکھا تھا۔ ابھی کچھ دن پہلے مجھے وٹس ایپ پر میجر عامر کا صوتی پیغام ملا جسے سن کر سانس حلق میں اٹک سا گیا کہ جمیل مرغز کو برین ہیمرج ہوا ہے اور وہ آر ایم آئی میں بے سدھ پڑے ہیں، جوابی میسج میں اس کے لئے دعامانگی کہ اسی دوران میجر عامر کا رندھی ہوئی آواز میں دوسرا صوتی پیغام ملا۔”ابھی دو منٹ پہلے جمیل مرغز کے بھتیجے کا فون آ یا ہے کہ۔۔“ میں سمجھ گیاتھا پورا میسج کیا سنتا، اب سوچتا ہوں کہ بشرط صحت و زندگی جب واپسی ہو گی اور نیسا پور میں انشاء اللہ احباب اکٹھے ہوں گے تو اس وقت مقبول عامر کے شعر کی سرگوشی بھی آنکھوں میں دھواں بھررہی ہو گی۔
وہ فصل ِ گل کی طرح آ تو جائے گا لیکن
مجھے خزاں کی ہو ا دور لے گئی ہو گی