سپریم کورٹ کو آئینی ترمیم کا نوٹس لینا چاہیے، جسٹس وجیہہ

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کو مجوزہ آئینی ترمیم کا آرٹیکل 184(3) کے تحت نوٹس لینا چاہیے جس کا مقصد ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو محکوم بنانا ہے۔

سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ دنیا میں 15 ستمبر کو یوم جمہوریت منایا گیا، اسلام آباد میں جو کچھ ہوا، اسے شاید ہی جمہوریت قرار دیا جا سکے، کیونکہ حکومت نے بھونڈے طریقے سے دونوں ایوانوں کے ذریعے آئینی ترمیم کیلیے مطلوبہ تعداد جمع کرنے کی کوشش کی، جس کا مقصد عدلیہ کو محکوم بنانا تھا۔

مجوزہ ترامیم کے مسودے کو ریاستی راز قرار دیتے ہوئے جس طرح حکومت آئینی ترمیم  کی کوشش کر رہی تھی ،سیاسی ماہرین نے اس کے پیچھے کی حکومتی نیت پر سوالات اٹھا دیے، سیاسی مبصرین نے پارلیمنٹ میں مناسب اور بامعنی بحث کی عدم موجودگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی جلد بازی اکثر مسائل پیدا کرتی ہے۔

جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نےکہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عدالتیں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس ترمیم کا نوٹس لیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہی ایک آئینی پٹیشن اس مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی جا سکتی ہے، جو بظاہر آئین کے فریم ورک کے مطابق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کے دور میں نہ صرف 18 ویں ترمیم روک دی گئی بلکہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف نظر آنے والی متنازع شقوں کو مجوزہ ترمیم سے ہٹا دیا گیا،بھارت میں عدالتی فیصلے کے ذریعہ یہ طے شدہ اصول ہے کہ پارلیمنٹ کو آئین  کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرنے کا اختیار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ججز آئین کے محافظ ہیں اور اسے کسی بھی تحریف سے بچانا ان کے اختیار میں ہے، سابق نگراں وزیراعلیٰ حسن عسکری نے کہا کہ یہ ترمیم جمہوری عمل کی ناکامی ہے کہ آئین میں ترامیم خفیہ طور پر کی جاتی ہیں۔ پارلیمنٹ میں کسی بڑے اتفاق رائے یا کسی بامعنی بحث کے بغیر قانون منظور کرانے کی کوشش انتہائی افسوس ناک ہے۔

احمد بلال محمود نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ کے باہر بھی اس پر بحث ہونی چاہیے تھی، متعلقہ لوگوں کو اس معاملے پر بولنے کی اجازت ہوتی، 18ویں ترمیم کا بھی وہی حشر ہوا جو اس ترمیم کا ہوا کیونکہ 18ویں ترمیم پر بھی بحث نہیں ہوئی تھی،کوئی بھی قانون سازی جو مکمل غور و فکر کے عمل سے گزرتی ہے اس میں اکثر بہت سی خامیاں رہ جاتی ہیں۔