حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں چیف جسٹس یا ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی جارہی ہے اور میڈیا میں یہ اطلاعات محض قیاس آرائیاں ہیں۔
سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اور خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ چیف جسٹس اور ججوں کی مدت ملازمت، اس میں توسیع اور ریٹائرمنٹ کی عمر نہیں بڑھائی جا رہی ہے، یہ سب میڈیا میں جاری قیاس آرائیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ آئینی ترامیم پر مولانا فضل الرحمان راضی ہو جائیں گے اور جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر تمام جماعتوں کے تعاون سے ترامیم منظور ہو جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جج کیا تنخواہ لیں گے، کب ریٹائر ہوں گے، یہ سب فیصلے پارلیمنٹ نے کیے ہیں اور آئندہ بھی وہی کرے گی، وکلا سے رابطہ کرکے ان کی رائے لی جائے گی، بار ایسوسی ایشنز اسٹیک ہولڈر ہیں۔
حکومتی سینیٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکا جائے، یہ ایسا ہی ہے جیسے عدلیہ کو فیصلے دینے سے روک دیا جائے، دو تہائی اکثریت نہ ہوئی تو ترمیم بھی نہیں ہوگی۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ 25 یا 26 ترامیم ہوچکی ہیں، سب مشاورت کے عمل سے گزر کر منظوری کی منزل تک پہنچی ہیں۔
ایک سوال پر عرفان صدیقی نے کہا کہ ترامیم کا باب ختم نہیں ہوا بلکہ آگے بڑھ رہا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی)) اس عمل میں متحرک کردار ادا کر رہی ہے، بلاول بھٹو زرداری کی مولانا فضل الرحمان سے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ترامیم سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی، مولانا فضل الرحمان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور طے پایا کہ مشاورت کا عمل جاری رکھا جائے تاکہ اتفاق رائے قائم ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت 18 سال پہلے ہوا تھا جس سے بعد ازاں مولانا فضل الرحمان اور عمران خان نے بھی اتفاق کیا تھا، نواز شریف نے 18 سال پہلے میثاق جمہوریت میں جو چیزیں طے کی تھیں، ان پر سب متفق ہیں، ترمیم کے لیے رابطے ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے جو طریقہ کار طے کیا گیا تھا وہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دباؤ کی وجہ سے انیسویں ترمیم کے ذریعے ختم کر دیا گیا تاہم اسی طریقہ کار کو بحال کرنے کے لیے حالیہ آئینی ترمیم میں شامل کیا گیا ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے بغیر ہمارے نمبر پورے نہیں ہیں، انہیں آن بورڈ لینا ہوگا، مولانا فضل الرحمان کو اصولی طور پر ترامیم سے اتفاق ہے اور وہ آئینی عدالت اور اٹھارویں ترمیم میں ججوں کے طریقہ کار سے متفق ہیں، جزئیات اور تفصیلات کو سمجھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم تب ہوگی جب مولانا راضی ہوں گے، پاکستان پیپلز پارٹی ہماری اتحادی ہے، وہ متحرک کردار ادا کر رہی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں، مجھے یقین ہے کہ آئینی ترامیم مولانا فضل الرحمان اور دیگر تمام جماعتوں کے تعاون سے منظور ہو جائیں گی۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد سے سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ نہیں تھا، یہ طریقہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے بدلا تھا اور خود بھی اس کا شکار ہو کر گھر چلے گئے تھے کیونکہ وہ خود سنیارٹی لسٹ میں ساتویں نمبر پر تھے۔
انہوں نے کہا کہ چار سینیئر ترین ججوں میں سے ایک جج کو چیف جسٹس تعینات کرنے کا پرانا نظام بحال کرنا چاہتے ہیں۔