چاروں طرف سے بحر اوقیانوس میں گھرے ہوئے برطانیہ کے سارے جزائر خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں‘ اور جن چار ملکوں کے سیاسی اتحادسے مل کر یونائیٹڈ کنگڈم(یو کے) بنتا ہے اس میں شمالی آئر لینڈ‘سکاٹ لینڈ‘ویلز اور انگلینڈ شامل ہیں مجھے اس بار سکاٹ لینڈ جانا تھا مگر لندن کے عالمی مشاعرے کے سبب پروگرام نہیں بن پایا‘ البتہ ویلز جانے کا موقع ضرور ملااور ایک بھرپور دن ساحل سمندر پر گزارا ویلزکا ایک عمدہ سفرنامہ فکشن رائیٹرمشرف مبشر نے لکھا ہے اور بجا طور پر اسکا نام ”ویلز دلآویز“ رکھا ہے‘ بہت دنوں سے تفریح کا پروگرام سوچا جارہا تھا جو ظاہر ہے ویک اینڈ پر ہی رکھا جاسکتا تھا مگر ہر ہفتہ یا اتوار کوئی ادبی نشست آڑے آ جاتی تقریب ادبی ہو‘سماجی یا سیاسی نوعیت کی باہر کی دنیا میں اسے ہفتے کے آخری دنوں میں ہی رکھا جاتا ہے‘ابتسام علی سیّد کے علاوہ انکے فیملی فرینڈ ز محمد آصف اور ڈاکٹر آفان کی بھی یہی خواہش تھی کہ ہمارے ہوتے ہوئے ایسا کوئی پروگرام ترتیب دیا جائے جہاں تینوں گھرانے مل کر پکنک منا سکیں اور بالآخر ایک دن مختص ہوا اور قرعہئ فال ’ویلز دلآویز کے نام نکلااور ہم ایک طرح سے انگلینڈ سے نکل کر دوسرے ملک جا پہنچے‘ ساحل سمندر پر کتنے ہی گھرانے ہماری طرح پک نک منانے پہنچے ہوئے تھے جگہ جگہ ساحل کی ریت پرچٹائیاں بچھا کر کھانے پینے کے سامان نکالے اور پروسے جا رہے تھے‘ ون ڈش پارٹی کو مرحوم رضا ہمدانی نے ایک خوبصورت فارسی نام ”روزیئ خود“ دے رکھا ہے‘ہماری پک نک بھی روزیئ خود کی طرح تھی معلوم نہیں لیکن شاید تینوں فیملیز نے مل کرطے کیا تھا کہ کون گھر سے کیا بنا کر لائے گااسلئے ہمیں تو نہیں مگر خواتین کو معلوم تھااور یہ بہت اچھی بات ہوتی ہے کہ پہلے سے طے کر لیا جائے کیونکہ مجھے یاد ہے جن دنوں حلقہئ ارباب ِ ذوق پشاور کے اجلاس مرحوم یوسف رجا چشتی کے پشاور گیریژن کلب والے گھر میں ہوتے تھے اور یہ سلسلہ طویل عرصہ تک انکے حیات آباد والے گھر منتقل ہونے تک جاری رہا تھا‘ اور انہی اجلاسوں میں دیگر زعما کے ساتھ ساتھ معروف شاعر و نقاد مظفر علی سید باقاعدگی سے ہر ہفتے شریک ہوتے بلکہ یہاں ہونے والی نشستوں میں محسن احسان اور احمد فراز بھی گاہے گاہے شریک ہوتے تھے اور ایک بار تو احمد فراز کے ساتھ سیف الدین سیف بھی آئے تھے اور ہم نے انہیں جی بھر کے سنا تھا
کوئی ایسا اہلِ دل ہو کہ فسانہئ محبت
میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے
انہی دنوں ایک اجلاس عید کے تیسرے یا چوتھے دن کو ہو نا تھا اس لئے کچھ احباب کا خیال تھا کہ اس ہفتہ اجلاس کی چھٹی کی جائے لیکن اس زمانے میں ایک بار بھی حلقہ کے تسلسل میں تعطل کسی کو بھی گوارا نہ تھا تو میں نے تجویز دی کہ معمول کی نشست کے بعد عید ملن کا ڈول ڈالا جائے اور عشائیہ کا اہتمام یوں کیا جائے کہ ہر شخص اپنا کھانا ساتھ لے کر آئے لیکن جب میز پر سب دوستوں کے کھانے کھلے توسب پرکھلا کہ ہر شخص گھر سے قیمہ ہی لے کر آیا ہے اگر چہ یہ مختلف ڈشز تھیں مگر قیمہ کی تھیں یعنی کوفتے‘نرگسی کوفتے‘قیمہ مٹر‘قیمہ آلو‘ قیمہ شملہ مرچ‘بھنا قیمہ‘ شامی کباب‘ چپل کباب‘ سیخ کباب اور جانے کیا
کیا اس عید ملن کو ا ور ون ڈش پارٹی کو اب تک یاد کیا جاتا ہے‘ ون ڈش کو امریکہ میں ”پاٹ لک“ کہا جاتا ہے یعنی ہر شخص اپنے گھر سے اپنا کھانا بنا کر لائے مگر وہ اتنا ہو کہ اسے دوسروں کے ساتھ شئیر بھی کیا جاسکے‘ میں ہمیشہ اْس عید ملن پارٹی کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیشہ پاٹ لک کے معنی ”قسمت پڑیا“ ہی کرتا ہوں کہ کیا معلوم کس کے ہاں سے کیا ڈش آئی ہو‘ لیکن ویلز میں ایسا نہیں تھا کیونکہ ساحل سمندر پر جب کھانا پروسا گیا تو کھانوں کی ورائٹی کے لحاظ سے یہ ایک شاندار اور یادگار ظہرانہ بن گیا تھا‘ کھانے کے دوران بچوں کیلئے اور بہت سی تفریحی سرگرمیوں کے ساتھ سفید سمندری بگلوں (sea gull) کی طرف کھانے کی چیزیں اچھالنا بھی تھا جسے وہ زمین پر گرنے سے پہلے اچک لیتے ایک سرپرائز ابتسام نے یہ بھی دیا کہ وہ اور ڈاکٹر آفان تھوڑی دیر کیلئے ٹاؤن کی طرف چلے گئے اور واپسی پر ساتھ برتھ ڈے کیک بھی لے آئے ہر چندچھوٹے اشمان علی سیّد کی سالگرہ میں ابھی دو دن تھے مگر باہر کی مصروف زندگی میں پھر فیملیز کا ایسا اکٹھ ممکن نہ ہو تاسو سمندر
کنارے یہ خوشی بھی سیلی بریٹ ہوئی‘ ویسے بھی باہر کی دنیا میں اس طرح کے مواقع بہت کم میسر آتے ہیں سو اچھا لگا‘ساحل کی گیلی گیلی ریت پر ننگے پاؤں گھومنے کابھی اپنا ایک لطف اور ایک مزہ ہے اور اس دن میں بھی دیر تک بھیگی ریت پر ننگے پاؤں بچوں کے ساتھ پھرتا رہا سمندر کنارے چھوٹے بچوں کا پسندیدہ کھیل چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی بالٹیوں میں ریت بھرنا اور پھر اسے الٹا کر گنبد نما سا بنانا ہوتا ہے جسے کچھ ہی دیر بعد خود مسمار کر دیتے ہیں یا کوئی دوسرا شرارتی بچہ اسے گرا کر قہقہہ لگاتا ہوا بھاگ جاتا ہے بچہ اس شرارتی بچہ کو خفگی سے دیکھتا ہے مگر اگلے ہی لمحے سب کچھ بھول کر پھر سے بنانا شروع کر دیتاہے‘ ہم بھی بچپن میں گھر سے چند گز کی دوری پر دریائے کابل کے کنارے اسی طرح ریت میں اپنا پاؤں رکھ کر گھروندے بنایا کر تے تھے اور ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے رنگین ٹکڑوں سے ان کی چھت کو سجایا کرتے تھے اور کوئی شرارتی بچہ انہیں توڑ دیتا تھا مگر ہم بھی زیادہ دیر تک اس سے ناراض نہیں رہ سکتے تھے‘ اس زمانے میں لڑنے جھگڑنے کا بھی اپنا ایک رومینس ہوتا تھا‘ ہمدم دیرینہ اردو اور پنجابی کے شاعر و ادیب فضل حسین صمیم جب تک پشاور میں رہے ہم محافل میں ان سے ان کی ایک پنجابی غزل کی فرمائش ضرورکیا کرتے تھے‘”آ ریتاں دے کہار بنڑا کے بالاں ونگرو لڑئیے“ (آؤ کہ پھر سے ریت کے گھروندے بنا کر بچوں کی طرح لڑنے لگیں‘ ساحل کی سیلی سیلی ریت پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے نہ جانے میں کتنے زمانے گھوم آ یا تو دیکھا کہ اب رفتہ رفتہ ساحل کی بھیڑ چھٹ رہی تھی‘بہت سے پرندے واپس آشیانوں کی طرف جارہے تھے‘ کچھ دیر پہلے کا رونق میلا اب سمٹنے لگا تھا‘چٹائیوں پر سے بچا کھچا کھانا اکٹھا کر کے برتن پیک کئے جانے لگے تھے دن بھر روشنی لٹاتا سورج بھی تھک ہار کر غروب ہو رہا تھا اور آسمان کے مغربی کنارے آہستہ آہستہ شنگرفی ہو رہے تھے جو اس بات کی علامت تھی کہ اب ساحل کو سمندر کے حوالے کر دیا جائے گا اور پھر طلوع آفتاب تک ان کے آپس میں راز و نیاز جاری رہیں گے ماحول میں اداسی سی چھانے لگی سب اپنی اپنی گاڑیوں کی طرف جانے لگے تھے اور میں مڑ مڑ کر سمندر اور آسمان کے لال ہوتے ہوئے کناروں کو دیکھتے ہوئے اپنا ہی شعر خود کو سنانے لگا تھا
وہ شفق ہو کہ سمندر کہ مر ا دل ناصرؔ
شام ہوتی ہے تو ہر چیز لہو روتی ہے