ہم فاصلہ مٹنے کی دعا کیوں نہیں کرتے

مجھے قاہرہ سے اردو کی ایک بہت عمدہ شاعرہ ڈاکٹر ولا جمال العسیلی کا برقی پیغام ملا تھا کہ میں بہت خوش ہوں کہ آپ سے ملاقات ہورہی ہے میں نے کہا مگر میں تو قاہرہ نہیں آرہا ہوں۔ہنس کر کہنے لگی تو میں لندن آ جاتی ہوں،میں نے کہا پھر تو بشرط زندگی ضرورملاقات ہو گی، دراصل ہوا یوں کہ بزم سخن یو کے کا ایک عالمی مشاعرہ بعنوان ’میرا پیغام محبت ہے‘ اگست کی سترھویں شام کو لندن میں ہو رہا تھا، مجھے کچھ ہی دن پہلے بریڈ فورڈ سے دوست عزیز اور معروف شاعراشتیاق میرؔ کا فون آ یا اور مجھ سے میری دستیابی کا پوچھا میں نے حامی بھری تو پھر دو دن بعد بزم سخن یو کے شاعر دوست سہیل ضرار خلشؔ کا فون آیا اور پروفیسر عقیل دانش اور اپنی طرف سے مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی،اس وقت مجھے علم نہ تھا کہ اور کون سے احباب اس میں شریک ہوں گے جس دن مجھے ڈاکٹر ولاجمال کا میسج آ یا اسی دن شام کو مجھے سہیل ضرار کی طرف سے مشاعرہ کا فلائیر بھی موصول ہوا تو معلوم ہوا کہ لاہور پاکستان سے استاد اعجاز توکل، مصر سے ڈاکٹر ولا جمال اور انڈیا سے جواں سال و جواں فکر اور مقبول شاعر عمران پرتاب گڑھی بھی شریک ہو رہے ہیں عمران پرتاب گڑھی اپنی بے خوف اور سماج کے پسماندہ طبقہ کیلئے اپنی مؤثر آواز بلند کرنے والا ایک نوجوان شاعر ہے جسے کانگریس کی ہائی کمان نے اقلیتوں کے مسائل کے حل کیلئے آواز اٹھانے کے لئے اب ’راجیہ سبھا‘ کا ممبر بھی منتخب کروا یا ہے،۔ان دنوں فلسطین کیلئے ان کی دعائیہ نظم ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ از حد مقبول ہو چکی ہے جسے وہ اپنے مخصوص ترنم اورپر جوش انداز میں ہزاروں کے مجمع میں جب پڑھتا ہے تو سننے والوں کا جوش و خروش بھی دیدنی ہوتا ہے خصوصا یہ شعر تو بہت پسند کیا جارہا ہے
لشکرِ فیل جہالت پہ اتر آیا ہے
اے خد ا پھر سے ابابیلوں کو کنکر دے دے
ان کے علاوہ یو کے کے چند معروف و مقبول شعرائے کرام کے نام بھی تھے، ڈاکٹر ولا جمال قاہرہ مصر سے تعلق رکھنے والی ایک عربی النسل شاعرہ ہے جو اپنے منفرد لب و لہجہ، عمدہ شعر اور اردو زبان و ادب سے بے پناہ محبت کی وجہ سے بہت مقبول ہیں، سوشل میڈیا پر بھی ان کی اردو دوستی کے بہت چرچے ہیں دریائے نیل کے قرب میں 
رہنے والی اس عمدہ شاعرہ کو دختر نیل بھی کہا جاتا ہے اور اردو پریمی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ غالباً یہ پہلی عرب خاتون ہے جس کے اردو شعری مجموعے منظر عام پر آئے اور انہیں پزیرائی بھی حاصل ہوئی، اوائل میں اردو کے لفظ سے بھی نا آشنا ولا جمال کو ہندی فلمیں اور گیت دیکھنے اور سننے کا موقع تو ملا مگر بہت بعد میں انہیں علم ہوا (بقول ان کے) کہ اردو اور ہندی تو ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں، اس پر مجھے یاد آیا کہ جب کوئی دو دہائیاں قبل میں پہلی بار بنے بھائی(سجاد ظہیر) کے صد سالہ جشن ولادت پر انڈیا گیا تھا اور الہ آباد یونیورسٹی میں ہندی کے شعبہ کی ایک ادبی نشست میں شریک تھا تومیں نے اپنے تعارف میں یہی کہا 
تھا کہ میں پشاور کے تاریخی گورنمنٹ کالج میں ہندی کے شعبہ کا چیئرمین ہوں تو کسی نے پوچھا پشاور کے کالج میں ہندی شعبہ بھی ہے میں نے کہا جی یقیناہے مگر ہم اسے محبت سے شعبہ اردو کہتے ہیں اور یہ بالکل اْسی طرح ہے جس طرح ان گنت اردو فلموں کے سنسر سرٹیفکیٹ میں زبان کے خانہ میں ”ہندی“ لکھا ہوتا ہے، پھر ولا جمال کو اردو سے دلچسپی ہوئی اور پھر انہوں نے داخلہ لیااور جب نتیجہ آیا تو ان کی پہلی پوزیشن آئی، وہ کہتی ہیں کہ جب میں اردو پڑھتی تھی تو مجھ سے پوچھا جاتا کہ کیا پڑھ رہی ہیں تو مجھے جھجھک ہوتی کیونکہ مصر کے لوگوں کیلئے اردو کوئی مانوس زبان نہیں تھی وہ ہندی سے تو آشنا تھی مگر اردو سے نہیں کیونکہ یہ کسی خاص علاقے سے وابستہ نہ تھی، پھر انہوں نے پہلے ماسٹر اور پھر پی ایچ ڈی کیا ایم اے میں ان کا کام سر سید احمد خان کے اصلاحی مضامین کے تنقیدی جائزے کے حوالے سے تھا جب کہ ان کے ڈاکٹریٹ کا موضوع ”فہمیدہ ریاض“ کی 
شاعری تھا، اور تب سے اب تک وہ قاہرہ کی عین شمس یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے بطور پروفیسر جڑی ہوئی ہیں، درس و تدریس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ولا جمال کے اردو تنقیدی اور تحقیقی مقالات بھی شائع ہو تے رہے، اور جب انہیں پانچ سال قبل”2019”میں کلکتہ میں ایک ادبی کانفرنس میں شریک ہونے کا موقع ملا تو انہیں اردو شعر نے بھی اپنا اسیر بنا لیا اور اسی برس انہوں نے پہلی نظم لکھی اور تھوڑے ہی عرصہ میں ان کے شعر نے پڑھنے والوں ہی کی نہیں شعر شناس اساتذہ کی توجہ بھی حاصل ہو گئی اور جہاں دنیا بھر میں ان کا شعر پڑھا اور پسند کیا جانے لگا وہاں شروع ہی میں ان کا کلام روزنامہ آج کے ادبی صفحہ ”ادب سرائے“ میں شائع ہونے لگا اور پھر وبا کے دنوں میں اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئر مین ڈاکٹر یوسف خشک نے آن لائن عالمی مشاعروں کا ڈول ڈالا اور پہلے آن لائن حمدیہ اور نعتیہ مشاعرہ میں ڈاکٹر ولا جمال کو بھی مصر سے لیا۔اس پہلے مشاعرے کی نظامت کا اعزاز مجھے ملا تھا، تب سے ڈاکٹر ولا کے ساتھ سوشل میڈیا کی وساطت سے بات ہوتی رہتی ہے، لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ ہم ایک ”زمینی مشاعرہ“ میں اکٹھے تھے، پبی سے تعلق رکھنے والے اردو پشتو کے قلمکارمنظور الحق بھی ان دنوں لندن میں تھے ان کا بھی فون آیا کہ وہ اس مشاعرے میں بطور سامع شریک ہونا چاہتے ہیں، سو وہ بھی آگئے تھے بہت عمدہ مشاعرہ تھا منظور الحق نے ڈاکٹر ولا جمال سے قاہرہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ وہ مصر میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں،یہ مشاعرہ میرے لئے اس حوالے سے بھی بہت اہم رہا کہ سہیل ضرار خلش کے ساتھ ساتھ بہت محبتی فضل محمدثانی سمیت کچھ بہت اچھے دوستوں سے تعارف ہوا،مشاعرہ کے دوسرے دن سہیل ضرار اور فضل محمود ثانی نے مجھے اور ڈاکٹر ولا جمال کو ایک ریستوران میں پنجاب کا روایتی ناشتہ کرایا جس کا لطف یوں دو بالا ہوا کہ اس ریستوران کے باہر سڑک پر غالباً ”راکھی بندھن“ کا تیوہار منایا جارہا تھا مجھے لینے برمنگھم سے ابتسام علی سید آگیا تھا سو دوستوں سے پھر ملنے کی دعا کے ساتھ اجازت لی، ڈاکٹر ولا جمال ؔ کا شعر یاد آ گیا
جو دور ہوا ہم سے وہی پوچھ رہا ہے
ہم فاصلہ مٹنے کی دعا کیوں نہیں کرتے