اْس دن مشی گن کی جادوئی جھیل نے بہت بولنے والے کچھ شعرا کو اپنی خوابیدہ خوابیدہ انگڑائیوں سے چپ کرا دیاتھا‘موسم خوشگوار تھا اورہوا بھی بہت دھیرے سے چل رہی تھی اس لئے لہریں بہت ہموار اور شائستگی کے ساتھ کناروں کو چھو کر لوٹ رہی تھیں‘ مجھے یاد ہے جھیل کے کنارے ذرا فاصلہ پر ہم سب کھڑے دھیمے لہجے میں بات کر رہے تھے ایک ڈر سا لگا ہوا تھا کہ کہیں ہماری باتوں سے کناروں تک آکر پلٹ جانے والی لہروں کی آواز دب نہ جائے، میں دوستوں کو چھوڑ کر آگے بڑھا اور جھیل کنارے کے پتھروں پر سے ہوتا ہوا پانی کے قریب پہنچ گیا اب پانی اپنا اپنا لگنے لگا تھا میں نے تصویریں بنانے کے لئے سیل فون نکالا تو ساتھ ہی اپنا پسندیدہ ٹریک بھی لگا لیا جسے نہ جانے کب سے میں ہر روز سنتا ہوں‘یہ کیفی اعظمی کا لکھا ہوا گیت ہے جسے لتا جی نے ہیمنت کمارکی اچھوتی کمپوزیشن میں گایا ہے۔ کچھ دل نے کہا۔کچھ بھی نہیں کچھ دل نے سنا۔کچھ بھی نہیں،ایسی بھی باتیں ہوتی ہیں۔“ اچانک مجھے اپنے عقب سے آواز آئی، واہ۔دیکھا تو امریکہ میں مقیم عمدہ شاعرہ فرح اقبا ل نوکیلے پتھروں پرسے بمشکل بچتے بچتے لتا جی کی آواز کی ریشمی ڈور سے کھچتی ہوئی چلی آرہی ہیں‘ پھرتصویریں بناتی ہوئی حمیرا گل تشنہ بھی ہمارے پاس آگئیں‘محبی راشد نور جانے کیوں جھیل کنارے سے کچھ فاصلہ پر ہی رک گئے تھے‘ جلد ہی میزبان شاعر عابد رشید بھی ہمارے پاس آگئے، اور مشی گن جھیل کے کنارے پتھروں پر بیٹھ کر نہ جانے کتنی دیر ہم موسیقی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ کچھ جھیل کے حسن کا رعب تھا اور کچھ لتا جی نے اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا‘سو دیر تک بیٹھے رہے، کوئی بات ہوتی بھی تو سرگوشیوں میں‘لگتا تھا جیسے جھیل کنارے کسی’عجیب سی چپ‘کی دھند نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،اس رات میں نے جھیل کے حوالے سے ایک کالم لکھا۔ اور پھران چپ کرا دینے والے خوشگوار لمحوں کواپنی یادوں کی گٹھری میں باندھ کر میں شکاگو سے لوٹ آیا، اب کے برس پھر امریکہ یاترا کاموقع ملا تو پہنچتے ہی فرح اقبال کا فون آیا اور بتایا کہ ان کا تیسرا شعری مجموعہ شائع ہو کر آگیاہے، میں نے نام پوچھا تو مسکرا کر کہنے لگیں ’عجیب سی چپ‘یہ نام سنتے ہی مجھے مشی گن جھیل کے کنارے گزارا ہوا وہ یادگاردن تما م تر جزئیات کے ساتھ یاد آ گیا، اور سوچنے لگا فرح اقبال بھی شاید مشی گن جھیل کے کنارے کی عجیب سی چپ اپنی یادوں کی گٹھری میں باندھ کر لے لائی تھی، کتاب ملی اور پڑھنے بیٹھاتو معلوم ہوا کہ ”عجیب سی چپ“ کی اپنی کہانیاں بھی بہت خوبصورت اور دلفریب ہیں، ویسے بھی مجھے یہ نظمیں،یہ غزلیں کہانیوں کی طرح ہی لگی ہیں لیکن شعر کی کہانی کا گھوڑا ذرا اڑیل ہوتا ہے بے ہنروں سے دوستی نہیں کرتا، اور اس شعری مجموعہ نے تو ایک سحر سا طاری کر دیا تھا آنکھیں شعر پڑھ رہی تھیں دل تائید کر رہا تھا اور سماعتیں اس پر کیفی اعظمی کے گیت کی مہر ثبت کر رہی تھیں کہ کچھ دل نے کہا،کچھ بھی نہیں کچھ دل نے سنا۔کچھ بھی نہیں،ایسی بھی باتیں ہوتی ہیں‘یہ باتیں چپ کی زبان میں ہوتی ہیں اس لئے پورا شعری مجموعہ دیکھ لیجئے کہیں بھی فرح اقبال کا شعر شور نہیں مچاتا،آہستگی اور شائستگی سے سرگوشیاں کرتے ہوئے دل و دماغ کو اپنا طرفدار بنا دیتا ہے،جیسے مشی گن کی مہذب لہریں دھیرے دھیرے کنارے کو چھو کرجھیل کی گہرائیوں میں لوٹ جاتی ہیں‘اس شعری مجموعہ کے ساتھ میں نے جتنا وقت بھی بتایا ہے میری فینٹسی مجھے لتا کے گائے ہوئے ایک فوک کی یاد دلاتی رہی۔ میرے سیاں جی اتریں گے پار۔ندیا دھیرے بہو۔فرح اقبال کے شعر اسی دھیرج سے دل میں اترتے جاتے ہیں۔میں نے کھا نا ان کاہرشعر ایک کہانی سناتا نظر آتا ہے پہلی ہی غزل کی ردیف ’عجیب سی چپ‘ ہے اور اس غزل کے پہلے ہی شعر سے ایک کہانی اپنی چپ دکھانی شروع کر دیتی ہے
رہ ِ وفا میں جہاں پہ بھٹکا تھا اک مسافر
وہیں کہیں پہ تھی ہاتھ ملتی عجیب سی چپ
اور پھر یہ کہانی اس مجموعہ کی ہر غزل میں نئے نئے لوکیل میں جنم لیتی ہو ئی محسوس ہوتی ہے، اس کہانی کو کہیں راستے چھوتے دکھائی دیتے ہیں کہیں منزلیں اس کے خال و خد سنوارتی نظر آتی ہیں، اورشعر کے سحر سے مسحور پڑھنے والا فرح اقبال کی انگلی پکڑے کبھی محبت کی اولین سرشاریوں سے بھیگنے لگتا ہے کہیں عشق کی کھوج میں اضطراب کی بھول بھلیوں میں کھو جاتا ہے اور کبھی سمندر بننے والی جھیل آنکھوں میں ڈوب ڈوب کر ابھرنے لگتا ہے۔
یہ اب گہرے سمند ر بن گئی ہیں
مری آنکھوں نے اک آنسو پیا ہے
فرح اقبال کا شعر اپنے مزاج اور بنت میں بظاہربہت شگفتہ اورکھلا کھلا سا نظر آتا ہے لیکن ان کے کلام میں ایک ہلکے سے درد کی لہر مسلسل ہلکورے لیتی دکھائی دیتی ہے، یہ درد وچھوڑے کا درد ہے، فراق کی کسک ہے،اور ایک بے نام سی اداسی اوڑھے ہوئے مراجعت کی للک ہے، نہ ختم ہونے والے انتظار کی جتنی اچھوتی تصویریں عجیب سی چپ میں بنائی گئی ہیں بہت کم شعر ایسی تصویریں بنا پاتے ہیں‘ فرح کو انتظا رکسی اورکے آنے سے زیادہ اپنے واپس آنے کا ہے حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ واپسی کا سفر جھیل کی لہروں کی واپسی سے مشابہ نہیں ہوتاہے یہ عذاب ہمیشہ ایک نئی افتاد اور واردات کا پیش خیمہ ثابت ہو تا ہے۔
اب جو باقی ہے فقط گرد مسافت ہی مری
مرا چہرہ تو کسی اور کے سامان میں تھا
فرح اقبالؔ کے ہاں نہ تو کوئی گنجلک اظہاریہ ہے اور نہ دور ازکار مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ بوقلمونیاں ہیں اسے گرد و پیش نے جو سکھایا ہے اسی سے اپنا شعر سجا یا ہے جس طرح اس کی اپنی شخصیت اجلی ہے اسی طرح اس کا شعر بھی منزہ اور پوتر لگتا ہے۔نسائی شعور سے مملو فرح اقبال کو اپنے شعری منطقہ اور اپنے ایریا کا ادراک ہے اس لئے اپنے شعر میں وہ جذبات اور محسوسات کا بے ساختہ اظہار کرنے پر پوری قدرت رکھتی ہیں، پھر جس طرح کی انہوں نے شعری تصاویر بنائی ہیں وہ حیران کن ہیں مجھے تو ان کا مجموعہ ”عجیب سی چپ“ ایک ایسا بولتا البم لگا جس کی ہر تصویر دیکھنے والے کو روک کر اس سے مکالمہ شروع کردیتی ہے۔
خالی دروازے کو تکتی ہے اترتی ہوئی دھوپ
سائے لگتے ہیں کسی اپنی پشیمانی میں
فرح اقبالؔ کی شاعری سفر،راستہ، ہمسفر،منزل، ملنا بچھڑنا انتظار،پچھلے اور اگلے موسموں کے حوالوں سے بھری پڑی ہے، اور یہ سارے لفظ محض لفظ نہیں ان کی دلی کیفیات کے آئینہ دار اور استعارہ ہیں اوریہ سارے استعارے ان کی محبتوں کی کھٹی میٹھی رتوں کی کہانیاں ہیں میں نے کہا نا کہ ہر شعر ایک کہانی ہو تا ہے، اور یہ شعر جب تک واردات نہیں بنتا اپنے ہونے کا اعلان نہیں کرتادل میں اترتا نہیں،دل میں اترنے کے بعد یہ کیفیت پیدا ہو تی ہے کہ سرگوشیوں میں خود سے پوچھا جاتا ہے۔
کچھ دل نے کہا۔ کچھ بھی نہیں کچھ دل نے سنا
کچھ بھی نہیں، ایسی بھی باتیں ہوتی ہیں