جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے

  برطانیہ میں شہروں کے درمیان فاصلے بہت کم ہیں، اور اگر آپ انگلینڈ میں ہیں اور برمنگھم میں رہتے ہیں تو یہاں سے کئی ایک چھوٹے بڑے شہروں تک فاصلہ دو سے تین،ساڑھے تین گھنٹے تک کا ہے، ان میں لندن،مانچسٹر،بریڈ فورڈ، لوٹن ا ور شیفیلڈ بھی شامل ہیں جہاں سال بھر ادبی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں،برمنگھم میں بھی رومی سوسائٹی سمیت کئی ایک فعال تنظیمیں ہیں،میں نے اب کے سال برطانیہ میں مئی سے اگست کے وسط تک بہت سی تقریبات میں شرکت کی اور اگست کے تیسرے ہفتے امریکا کے لئے روانہ ہوگیا تھا، امریکا میں میری منزل کولو راڈو کا شہر ”ڈینور“ تھی جسے ”اے مائیل ہائی سٹی“کہا جاتا ہے، خوبصورت پہاڑوں اور لانبے گھنے درختوں سے گھرا ہوا کولو راڈو سکیئنگ کے شوقین سیاحوں کی جنت کہلاتا ہے کیونکہ یہاں سردیوں میں بہت برف پڑتی ہے اور درجہ حرارت منفی پچاس تک گر جاتا ہے،یہ ایک خوب صورت مگر خاموش سٹیٹ ہے‘ یہی وجہ ہے کہ پرشور اور ہنگامہ خیز زندگی گزارنے والے بہت سے لوگ سبکدوشی کے بعد اس پرسکون علاقے کا رخ کرتے ہیں، میں گزشتہ بارہ برس سے مسلسل یہاں آرہا ہوں گزشتہ سال اور اس بار بھی میں نے محسوس کیا کہ ڈینور کی آبادی گزشتہ تین چار برس میں بہت بڑھ گئی ہے اور جہاں پہلے سڑکوں پر کم کم ٹریفک تھا اب بہت زیادہ ہو گیا ہے اور جہاں تا حد نظر اراضی کے خالی قطعات نظر آتے تھے وہاں اب کئی ایک رہائشی کالونیاں اگ آئی ہیں، میرا بیٹا افراز علی سیّد گزشتہ تیرہ برس سے اسی شہر میں رہتا ہے میں نے اس سے آبادی کے اضافہ کا سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ زیادہ تر لوگ کیلی فورنیا سے یہاں کو لو راڈو میں شفٹ ہو رہے ہیں ویسے تو پورے امریکا میں مہنگائی گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت بڑھ چکی ہے لیکن کیلی فورنیا میں پورے ملک کی نسبت مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے اس لئے وہاں سے لوگ جن دوسری سٹیٹس کا رخ کررہے ہیں ان میں سر فہرست کولوراڈو ہے‘افراز علی سیّد نے مجھے یہ بھی بتایا کہ پا پا! کیلی فورنیا کی مہنگائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کے لوگ اپنے گھر بیچ کر یہاں آجاتے ہیں اور ان پیسوں سے نہ صرف ایک کشادہ گھر خرید لیتے ہیں بلکہ ساتھ ہی کوئی بزنس بھی خرید لیتے ہیں یا پھر دو گھر خرید کر ایک گھرمیں رہتے ہیں دوسرا کرایہ پر چڑھا دیتے ہیں اور اس کے علاوہ دوسری بڑی وجہ یہ بھی کہ کولوراڈو نے ایک خاص نشہ کو حال ہی میں لیگل قرار دے دیا ہے جس پر کئی ایک سٹیٹس میں سخت پابندی ہے اس نشہ کا شکار لوگ بھی اس بنا پر کولو راڈو کی طرف آنا شروع ہو گئے ہیں،امریکا کے
 سارے شہروں میں آبادیاں خاصے فاصلوں پر ہوتی ہیں، کسی دوست سے ملنے جانا ہو، پارک جانا ہو، شاپنگ مال جانا ہو یا پھر نماز پڑھنے جانا ہو قریب ترین جگہ بھی دس منٹس سے تیس منٹس تک کی ڈرائیو پر ہوتی ہے، جن مساجد میں نماز جمعہ کا اہتمام ہوتا ہے ان میں کم و بیش ہر مسجد میں دو سے تین بار نمازہوتی ہے، چونکہ جمعہ ورکنگ ڈے ہے اس لئے ہر شخص اپنی سہولت کے مطابق پہلی،دوسری یا تیسری نماز کے لئے پہنچتا ہے اور ہر بار بھر پور حاضری ہوتی ہے، مجھے یہ دیکھ کر ایک طمانیت کا احساس ہوتا ہے کہ ان نمازیوں میں اکثریت نوجوان نسل کی ہوتی ہے، افراز علی سید کا اپنا حلقہ احباب بھی ایسے ہی جواں سال اور جواں فکر دوستوں پر مشتمل ہے جو جہاں بھی ہوں جتنے بھی مصروف ہوں ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بھلے سے دو بھی دوست ہوں تو باجماعت نماز کا اہتمام کرتے ہیں میں جب بھی جاتا ہوں تو ان کے ہاں باری باری ”تقریب بہر ملاقات“ کا انتظام کیا جاتا ہے اب کے بھی سمیر چوہدری، سلمان خان،محمد فیصل اور عمر رانا نے اپنے گھروں میں شاندار ضیافت اور نشست کا اہتمام کیا جب کہ ڈینور کی ادبی شخصیت اور تنظیم کار محمد اسرار اورافراز علی سید نے حسب سابق ایک مقامی ریستوران میں میرے حوالے سے ایک بہت ہی عمدہ اور بھرپور”شام ملاقات“ کا ڈول ڈالا جس میں مہمان خصوصی ڈینور میں مقیم پشاور کے معروف افسانہ و خاکہ و ناول نگار داؤد حسین عابدؔ تھے‘بھرپور شعری نشست میں ڈینور کے شعراء نے اپنا عمدہ کلام پیش کیا،ڈینور میں بھرپور شب و روز گزارنے کے بعد معروف دانشور اور عالمی شہرت یافتہ کالمسٹ عتیق احمد صدیقی کی دعوت پر میں نیو جرسی پہنچا جہاں معروف شاعر،افسانہ نگار، کالمسٹ اور حلقہ ارباب ذوق پسکاٹوے کے سیکرٹری ڈاکٹر عامر بیگ ائیر پورٹ پر میرے منتظر تھے، امریکا میں میرا قیام بیشتر اوقات تین سے چار ماہ تک ہوتا ہے اس لئے میں عتیق احمد صدیقی، ڈاکٹر محمد شفیق اور تاج اکبر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عامر بیک کابھی مہمان ہو تا ہوں،بہت کم عرصہ میں حلقہ ارباب ذوق پسکاٹوے کو انہوں نے بہت فعال تنظیم بنا دیا 
ہے، ماہانہ معمول کے اجلاس کے ساتھ ساتھ وہ احباب کی کتب کی رونمائی اور احباب کے اعزاز میں خصوصی نشستوں کا انتظام و انصرام کرتے ہیں ہر چند حلقہ کی مجلس عاملہ میں کئی ایک معتبر اور قد آور نام بھی شامل ہیں تاہم ان نشستوں کا سارا بندوبست وہ خود کرتے ہیں،اجلاس ان کے گھر کی کشادہ بیسمنٹ میں ہوتے ہیں جہاں کرسیاں لگانے اورسٹیج سجانے سے لے کر دوستوں سے رابطہ کرنے اور شاندارعشائیہ تک کا انتظام وہ تن تنہا کرتے ہیں، بلکہ باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی رہائش بھی ان کے گھر پر ہی ہو تی ہے تقریب کی پری اور پوسٹ پبلسٹی کا کام بھی انہوں نے اپنے ذمے لے رکھا ہے، اپنے یو ٹیوب چینل پر اور اپنے کالم ”آنکھوں دیکھا“ میں ان تقریبات کا احوال وہ بہت عمدگی سے بیان کرتے ہیں بلکہ ادبی زعماء خصوصاً مہمان شعراء اور ادباء کے تفصیلی انٹرویو بھی ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر نشر کر دیتے ہیں،ڈاکٹر عامر بیگ نے وباء کے موسم میں حلقہ ارباب ذوق پسکاٹوے کے زیر اہتمام آن لائن مشاعرے بھی ”زوم“ پر منعقد کئے جن میں پوری اردو دنیا کے شعراء شرکت کرتے رہے اور ان مشاعرے میں ایک انفرادیت یوں قائم رکھی کہ ان تمام مشاعروں کی صدارت کے لئے ہر بار میرا ہی نام دیا بلکہ جب ان کے حلقہ ارباب ذوق نیو جرسی کا قیام وجود میں آیا تو اس کے افتتاحی اجلاس کے لئے میرے امریکا کے دورے کا انتظار کیا اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ جب ایشیا ٹریبون ٹی وی چینل کے مالک و مدارالمہام، ڈیلی ایشیا ٹریبون کے چیف ایڈیٹر،شاعراور سفرنامہ نگار عارف افضال عثمانی ؔ کے حلقہ ارباب ذوق نیو جرسی کے پہلے چپٹر کے آغاز کے اور افتتاح کے لئے میرا نام ہی خبروں اور فلائیر میں دیا تھا مگر مجھے ہیوسٹن میں پروگرام سے چار دن زیادہ رکنا پڑ گیا تھا میں نے فون کر کے معذرت کی تو ان کا جواب تھا ”حلقہ کا افتتاح بہر حال آپ نے ہی کرنا ہے آپ جب آئیں بتا دیں“ یوں افتتاحی اجلاس کو ایک ہفتہ کے لئے مؤخر کر دیا تھا، اسی طرح گزشتہ برس ڈاکٹر عامر بیگ نے اپنے شعری مجموعہ ’محبت استخارہ ہے“ کے لئے بطور خاص مجھے امریکا بلایا اور اس بار ان کے افسانوں کا مجموعہ مانتو شائع ہو رہا ہے جس کے لئے میں رک نہیں سکتا تھا تو اس کی رونمائی کی تقریب میری بشرط صحت و زندگی دوبارہ امریکا کی یاترا تک مؤخر کر دی ہے، دوستوں کی ان بیکراں محبتوں سے میں ہمیشہ شرابور رہتا ہوں مجھ ہی چمداں کے پاس بجز دعاؤں کے اور کیا ہے اطہر نفیس نے کیا اچھا کہا ہے۔
 بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن
جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے