کراچی میں ہوئے سانحہ کارساز کو 17 سال بیت گئے لیکن المناک واقعہ کے غم آج بھی تازہ ہیں۔
18 اکتوبر 2007 وہ دن جب سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو طویل خود ساختہ جلا وطنی کے بعد وطن پہنچیں تو کراچی ایئرپورٹ پر جیالوں نے ان کا شاندار استقبال کیا، عوام کے ٹھاٹے مارتے سمندر کے باعث بینظیر بھٹو کے خصوصی ٹرک نے کارساز تک کا منٹوں کا سفر کئی گھنٹوں میں طے کیا تو یک بعد دیگرے دو زوردار دھماکے ہوئے۔
دھماکوں نے تمام خوشیاں قیامت صغری میں تبدیل کر دیں، دھماکہ ہوتے ہی ایسی افرا تفری مچی کے ہر طرف صرف چیخ و پکار اور ایمبولینس کے سائرن کی گونج تھی، اس افسوسناک واقعہ میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد جاں بحق جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے، تاہم واقعے میں ملوث افراد قانون کے کٹہرے میں نہ آسکے۔
پیپلز پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ 18 اکتوبر کا واقعہ 27 دسمبر کے واقعے کا تسلسل تھا، جیالے کارکن اور رہنما ہر سال کارساز یادگار شہداء پر جمع ہوتے ہیں اور شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، اس سال پیپلز پارٹی کی جانب سے مرکزی جلسہ حیدرآباد میں منعقد کیا گیا ہے۔
حیدرآباد میں ہٹڑی بائی پاس گراؤنڈ میں جلسے سے چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری خطاب کریں گے۔
اس حوالے سے بلاول بھٹو نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اس المناک دن 180 بہادر جیالوں نے جامِ شہادت نوش کیا، 18 اکتوبر کے شواہد مٹا دیئے گئے، یہی کام 27 دسمبر کے واقعے پر بھی ہوا، 27 دسمبر کے سانحے میں کچھ گرفتاریاں بھی ہوئیں لیکن عدالت نے ملزمان کو رہا کر دیا۔