مجھے دوران پرواز نیند نہیں آتی کئی بار دوران پرواز ہی عشاء کی نمازبھی پڑھی اور فجر کی نماز کی ادائیگی بھی کی۔ جہاز میں یہاں وہاں مسافروں کو سوتے دیکھ کر رشک آتا ہے، جوانی کی نیند کی طرح کی بے فکری سے گھنٹوں سوئے رہتے ہیں لمبی پرواز میں ہوائی میزبان ذرا ذرا وقفوں سے چائے کھانا اور مشروبات لے کر آتی ہیں مگر انہیں ڈسٹرب کئے بغیر اگلے جاگے ہوئے مسافر کے پاس چلی جاتی ہیں ابھی کچھ دن پہلے میں نیو جرسی سے ڈینور کی طرف آ رہا تھا کوئی چار گھنٹے کی پرواز تھی میرے سا تھ کی سیٹ پر کوئی کورین طالبہ بیٹھی تھی ابھی جہاز نے اڑان نہیں بھری تھی‘ ابھی ٹیکسی ہی کر رہا تھا کہ وہ سو گئی اور پھر اس وقت جاگی جب جہاز لینڈنگ کے بعد پھر ٹیکسی کر رہا تھا‘ میں نے پوچھا آپ کو خوب نیند آئی کہنے لگی۔ جی امتحانات تھے ہفتہ بھر سے پوری نیند نہیں لی تھی،مجھے ان لوگوں پر بھی رشک آتا ہے جو دوران پرواز مسلسل کوئی کتاب پڑھتے رہتے ہیں یا لیپ ٹاپ پر کام کر رہے ہوتے ہیں، ایک زمانہ تھا کہ برطانیہ اور امریکا میں دوران سفر اسّی فیصد سے زیادہ مسافر کتاب پڑھتے تھے اب یہ محض تین سے پانچ فی صد مسافروں کے پاس کتاب یا کوئی میگزین ہو تا ہے، سیل فون نے سب کو لکھنے،پڑھنے،گھڑی،کیمرہ،رشتے ناتے،اپنے پرائے اور نہ جانے کن کن چیزوں سے بے نیاز کر دیا ہے، اب ”ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے“ اس ننھی سی ڈیوائس کے زلف گرہ گیر کے اسیر ہو گئے ہیں‘میں ہر بار اپنے لیپ ٹاپ بیگ میں ایک دو کتابیں پڑھنے کی نیت سے رکھتا ہوں مگر دل جمعی سے پڑھ پاتا ہوں اور نہ ہی لیپ ٹاپ کھولنے کو من کرتا ہے، البتہ سیل فون سے جہاز کے اندر یا باہر کی تصاویر یا شارٹ ویڈیوز بنانا اچھا لگتا ہے، میں نے اس کورین طالبہ کی تصویر بھی بنائی جس وقت وہ بے فکری سے میرے شانے پر سر رکھ کر سو رہی تھی اور جب میں نے ان کے جاگنے پر اسے تصویر دکھاتے ہوئے معذرت کی کہ بغیر اجازت لئے تصویر بنائی تو وہ بہت معذرت کرنے لگی کہ آپ کو زحمت ہوئی، خیربقول عزیز حامد مدنی
طلسم خواب ِ زلیخا و دام ِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصّے سفر میں ہو تے ہیں
دوران سفر مسلسل جس کتاب کا مسودہ مسلسل میرا ہمسفر رہا مگر میں کسی طور اسے نہیں پڑھ پایا وہ نوجوان دانشور ڈاکٹر صدیق شاہ کے مضامین و مقالات کا عمدہ مجموعہ ”فجر جدید“ تھا۔ جب میں مئی میں برطانیہ آ رہا تھا تو جواں فکر دوست نے یہ کہہ کر مجھے یہ مسودہ دیا تھا کہ کتاب پریس میں ہے ممکن ہو تو چند سطریں لکھ دیجئے مگر میری مصروفیت آڑے آتی رہی‘وقت گزرتا رہا تاہم مہذب ڈاکٹر صدیق شاہ کا طویل وقفوں سے محض ’’مزاج بخیر“ کابرقی پیغام آتا، مجھے احساس تھا مگرادبی تقریبات اور اسفار نے جکڑے رکھا۔ لیکن جب پچیسواں گھنٹہ نکال کر مطالعہ کیا تو دیر تک اس کے سحر میں رہا اور پھر چند سطریں فلیپ کے لئے لکھیں ”ایک ایسے دور میں جب احساس بیگانگی کی دھند گہری اور گھمبیر ہوتی جارہی ہے، لاتعلقی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا اور محض حصول رزق ہی کی خاطر رائج تعلیمی نظام میں سے علم کو نہ جانے کب سے منہا کیا جاچکا ہے پھر یہ سوچ بھی مضطرب اور بے چین رکھتی ہے کہ سانس لینے کو ہی زندگی سمجھنے والے اس بے حس اور کٹھور معاشرے میں شعر و ادب کو تو پہلے ہی شغل ِ بیکاراں سمجھا جاتارہا ہے اور اب تو علم و دانش بھی ان کی زد پر ہے اور ”آئی اے“ یعنی مصنوعی ذہانت کے عفریت کو فربہ کیا جارہا ہے اس پر مستزاد یہ بھی کہ کسی کو احساس زیاں بھی نہیں ہے، کتاب کی جگہ اب ہاتھ میں ایک ایسی ڈیوائس آ گئی ہے جسے کیا نئی کیا پرانی نسل سب نے امرت دھارا سمجھ لیا ہے اور صبح،دوپہر، شام اور رات گئے ’چھٹتی نہیں ہے ہاتھ سے اک پل کو یہ کافر‘ لیکن وہ جو سیانے کہتے ہیں کہ ہر دور اپنے ستارے اپنے ساتھ لے کر آتا ہے تو مایوسی کی اس تاریکی میں سرنگ کی دوسرے کنارے کی روشنی اچانک ”فجر جدید“ کی صورت پھیل کر میرے دل و جان کو روشن کرگئی، ’فجر جدید‘ بظاہر چند تاریخی،تہذیبی،سائنسی اور ادبی مقالات کا مجموعہ ہے لیکن دراصل ’فجر جدید‘جواں سال و جواں فکر دانشورڈاکٹر صدیق شاہ کا ایک ایسا سچ ہے جس کا جادو ہر اس سر چڑھ کر بولے گا جو اس کے ساتھ کچھ وقت گزارے گا‘ مجھے تو اس کتاب نے انتساب ہی سے اپنی گرفت میں لے لیا تھا، ڈاکٹرصدیق شاہ نے اپنے بچوں اور والد مرحوم کے نام اس کتاب کو معنون کرتے ہوئے وجہئ انتساب میں لکھا ہے کہ”اپنے بچوں کے نام جن کے اوپر یہ راز منکشف ہو چکاہے کہ اپنی سسکی کو سنگیت میں کیسے بدلنا ہے“ مجھے کتاب میں یکجا کئے گئے ان تمام مقالات کے تخلیقی انداز ِ تحریر نے جہاں اپنا طرفدار بنایا وہاں اس جوان فکر دانشور کی اپنے سماج اور لوگوں کے لئے دلسوزی نے بھی اپنا گرویدہ بنایا اور اس کے مطالعہ نے تو مسلسل مجھے ورطہئ حیرت میں رکھا یوں تو سارے مقالے ان کے وسیع مطالعہ کے مظہر ہیں لیکن الحاد اور مغرب، سبزی خور شیر، خار پشت اسٹریٹجی اور عصری سیاست اور بطور خاص شعر وشاعری، نثر، فلسفہ اور سائنس“ کو رک رک کر پڑھنا پڑتا ہے، شعر و شاعری کے مضمون میں انہوں نے کمال مہارت اور چابک دستی سے نثر کا مقدمہ لڑا ہے جو بلا کا دلچسپ بھی ہے اور مکالمہ کا راستہ بھی استوار کرتا ہے مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر صدیق شاہ کے تخلیقی سبھاؤ، تہذیبی رچاؤ اورجدید حسیات کے بھید بھاؤ سے مملو فجر جدید کے مقالات تا دیر ان کے پڑھنے والے کے طرز احساس کو متحرک اور مرتعش رکھتے ہوئے ان کو ہموار راستوں کا راہی بناتے رہیں گے،میں میرؔ کی زبان میں یہی کہہ سکتا ہوں
پھول گل شمس و قمر سارے ہی تھے
پر ہمیں ان میں تمہیں بھائے بہت