”آج صبح گاؤں آیا تھا اب شام ہے اورمیں واپس اسلام آباد جارہا ہوں اس وقت موٹر وے پر ہوں جب کہ مارگلہ کی پہاڑیوں کے پیچھے سے ابھرتا ہوا چودہویں کے چاند کو بھی ساتھ ساتھ جاتے دیکھ کرمجھے شبیر ؔشباب کا شعر بھی یا دآیا اور آپ کے ہمراہ نیسا پور میں منائی ہوئی پورے چاند کی کئی راتیں بھی یاد آتی گئیں‘ شعر ایسا ہی ہے نا‘
کہ جیسے چاند مسافر کے ساتھ چلتا ہے
چلا وہ ساتھ مگر فاصلہ رکھا مجھ سے
یہ محبتی میجر عامر تھے جن کی کال مجھے امریکا میں ایسے وقت پر آئی تھی جب میں صبح سویرے افراز علی سیّد کے گھر کے بیک یارڈ میں اوس سے سیلی سیلی سبز گھاس میں خرگوشوں کی مستیاں اور لانبے گھنے درختوں پر سے اترتی چڑھتی گلہریوں کی خوش خرامیاں دیکھ کر بچوں کی طرح خوش ہو رہا تھا لیکن میجر عامر سے بات کرتے ہی یہ احساس کہ ’دیس میں نکلا ہوگا چاند‘ مجھے اداس کر گیا اور بے ساختہ میرے ہونٹوں پر کیف بھوؔپالی کا شعر رواں ہو گیا
کھیلنے کے لئے بچے نکل آئیں ہوں گے
چاند اب اس کی گلی میں اتر آیا ہو گا
اور پھر میں بیتابی سے شام کا انتظار کرنے لگا کیونکہ امریکا میں پورے چاند کی رات پاکستان کی نسبت گیارہ بارہ گھنٹے بعد آتی ہے‘ پھر کولوراڈو کے شہر ڈینور کے آسمان کے بارے میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ ہر صبح اور ہر شام آسمان کے کناروں پر رنگوں کے میلے لگ جاتے ہیں اور ان کے بیچ جب پورا چاند بھی اپنا چہرہ کراتا ہے تو دل چکور اور مور بن جاتا ہے‘ نیسا پور میں منائی گئی کئی چاند راتوں میں اسلام آباد اور پشاور کے دوست بھی شامل ہوتے ہیں اور شعر و ادب و سیاست پر عمدہ مکالمہ سننے کو ملتا ہے ایک بار تو ایک بھرپور شعری نشست میں حلقہ ارباب ِ ذوق پشاور کے دوستوں کے ساتھ ساتھ مردان سے بطورِ خاص ڈاکٹر ہمایوں ہما بھی شریک ہوئے تھے‘ یو کے اور امریکا کے قیام کے دوران جو دو چار دوست مسلسل رابطہ میں رہتے ہیں ان میں میجر عامر بھی شامل ہیں جن کے خوبصورتی برقی پیغام میرا دن بنا دیتے ہیں‘ اور ان پیغامات میں بر محل خوبصورت اشعار بھی شامل ہوتے ہیں جن میں سے اکثر ان کے استاد محترم احمد فرازؔ کے ہوتے ہیں“ پاکستان واپس آیا تو ابھی ”جیٹ لیگ“ کی کیفیت سے ابھی نبرد آزما تھا جب معلوم ہوا کہ حلقہ ارباب ذوق پشاور کے جواں فکر ناظم ڈاکٹر فضل کبیر نے محبی مشتاق شباب کی تجویز پر ’تقریب بہر ملاقات‘ کا اعلان کر دیا ہے بتا دیتے تو ذرا مؤخر کرنے کی استدعا کر لیتا کیونکہ جیٹ لیگ کی کیفیت میں مسلسل نیند کا غلبہ رہتا ہے یہ کیفیت طویل دورانیہ کی پرواز کے بعد مسافروں پر طاری ہوتی ہے دو تین دن تک تو بہت بے چینی رہتی ہے اور بسا اوقات ہفتہ بھر اپنی گرفت میں رکھتی ہے“ امریکا کے شہر ڈینور سے پہلے پڑاؤ تک کامسلسل ہوائی سفر کم ازکم اٹھارہ گھنٹے کا ہو تا ہے‘ پہلا پڑاؤ ائیر لائن کے انتخاب کے مطابق دبئی‘ ابو ظہبی‘ قطر‘ جدہ یا پھر استنبول ہوتا ہے جہاں سے اسلام آباد یا پشاور کے لئے مزید ساڑھے تین سے پانچ چھے گھنٹے تک سفر اضافی ہوتا ہے اور پہلے پڑاؤ پر چار پانچ گھنٹے سے لے کر بیس اکیس گھنٹہ تک کا وقفہ اس پر مستزادہے‘ اس لئے جیٹ
لیگ (ہوائی تکان)بہت دیر تک رہتی ہے‘ اور مجھے تو اس بار ڈینور سے لندن وہاں سے استنبول اور پھر اسلام آباد تک آنا تھا جہاں سے پشاور پھر موٹر وے سے آنا ہوا‘ اور اس طرح یہ سفر لگ بھگ تیس گھنٹے کا تھا جب کہ ڈینور سے روانگی سے چوبیس گھنٹہ پہلے میں نیو جرسی سے پانچ گھنٹے کی فلائٹ لے کر آیا تھا اور اس سے صرف ایک دن پہلے میں ہیوسٹن سے چار گھنٹے کی فلائٹ سے نیو جرسی پہنچا تھا‘ ظاہر ہے جیٹ لیگ نے بھی وقت زیادہ لینا تھا‘ لیکن دوستوں سے ملاقات کا اشتیاق حلقہ ارباب ذوق کی تقریب میں کشا ں کشاں لے گیا‘ معلوم ہوا کہ تقریب ملاقات کا اہتمام کرنے والے دونوں دوست مشتاق شباب اور فضل کبیرجوہ نہیں آ سکے اور ہمدم دیرینہ اقبال سکندر کا بھی فون آگیا کہ طبیعت کی ناسازی آڑے آ رہی ہے‘ تاہم پروفیسر ڈاکٹر سہیل احمد اور جوان سال و جواں فکر مسرور حسین نے شام کا اہتمام خوب کیا ہوا تھا‘پھر ڈاکٹر نذیر تبسم کا محفل میں موجود ہونا ہی کافی تھا‘چہ جائیکہ گفتگو کرنے والوں میں ڈاکٹر
نور حکیم جیلانی‘ ڈاکٹر اویس قرنی‘ اختر سیماب‘ ڈاکٹر خادم ابراہیم‘ ڈاکٹر صدیق شاہ اور افراز علی سیدبھی شامل تھے‘ جس کی وجہ سے جیٹ لیگ یاد ہی نہیں رہا‘ اس لئے دوسرے ہی دن اردو پشتو کے نظم گو شاعر ڈاکٹر میاں احمد رضا کے ہمراہ محبی میجر عامر کی دعوت پر نیسا پور کے بغلی راستے پر واقع شیخ القران مولانا محمد طیب طاہری کے ر یور برج ہوٹل ”اسپارہ یمان انڈس اوڈی سی“ کی افتتاحی تقریب میں پہنچ گیا‘ دریائے سندھ کے کنارے ایستادہ ہوٹل میں علاقے کے عمائدین کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی‘ معلوم ہوا کہ جلد ہی یہاں تفریحی‘ ادبی‘ ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں کا آغاز ہونے والا ہے‘ یہ محض ایک ہوٹل نہیں ہے بلکہ ایک کثیر الجہتی سیاحت کے امکانات کے خوابوں کی ایک جیتی جاگتی حسین تعبیر کا روپ دھارنے والا منصوبہ ہے جو فطرت کی گود میں سانس لیتے ہوئے جاری رہے گا اور جہاں دریائے سندھ کے فراخ سینے پر تیرنے والی موٹر بوٹ اور کشتیاں سیاحوں کو سیر کرائیں گی وہاں ’اسپارہ یمان انڈس اوڈیسی“ میں کتاب کہانی سمیت کئی ادبی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ موسموں سے مکالمہ کرنے اور شب ماہتاب میں پورے چاند میں میر تقی میرؔ کی طرح اپنے اپنے چاند کی تصویر سے سرگوشیوں میں باتیں کرنے کے مواقع بھی میسر آسکیں گے اور خوش ذوق انتظامیہ نے ان سرگرمیوں کو ’ایسپارہ‘ کی مناسبت سے ”گل پارہ“ اور ”مہ پارہ“ کے ٹائٹل سے موسوم کیا ہوا ہے‘ یہ افتتاح اگر دو دن پہلے ہوتا تو دریائے سندھ کے اطراف سے نکلتے ہوئے چودہویں کے چاند کا نظارہ دیدنی ہوتا‘ چاند تو سولہویں کا بھی دلکش اور دلفریب ہو تا ہے مگر رات گئے طلوع ہوتا ہے اور کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی ”اسپارہ یمان انڈس اوڈیسی“ کی افتتاحی تقریب کی بساط سر شام ہی لپیٹ دی گئی تھی‘ مجھے یہ سارا ماحول شاذ تمکنت کی ایک طرح دار نظم کی طرح محسوس ہو رہا تھا جسے گنگناتا ہوا میں دوستِ مہربان کے ہمراہ کچھ ہی فاصلہ پر موجود نیساپور کی طرف چل پڑا جہاں ابھی مجھے موسیٰ باغ بھی دیکھنا تھا‘ کبھی ان ا طراف آنا ہو تو شاذ تمکنت کی نظم پڑھ کر آئیے گا۔
موج ِ ساحل سے ملو‘ مہ ِ کامل سے ملو
سب سے مل آؤ تو اک بار مرے دل سے ملو