وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے کہا ہے کہ ہندوکش ہمالیہ خطے کو درپیش چیلنجز پاکستان نیپال، بھوٹان، بھارت اور بنگلہ دیش سمیت تمام علاقائی ممالک کی قومی سرحدوں کے پار بنیادی ڈھانچے، معیشتوں اور ماحولیاتی نظام کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے باکو میں ہندوکش ہمالیہ ریجن کے ممالک کے وزارتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوکش ہمالیہ خطہ جسے اکثر ”واٹر ٹاور آف ایشیا“کہا جاتا ہے، 1.3 ارب سے زیادہ لوگوں کا گھر ہے جو تقریباً ایک چوتھائی آبادی کے روزگار، پانی اور حیاتیاتی تنوع کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
رومینہ خورشید نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوکش ہمالیہ خطے کے پہاڑی حصے قدرتی آفات بشمول سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے بڑے پیمانے پر سماجی و اقتصادی نقصانات سے متاثر ہوتے ہیں، اس خطے نے حالیہ برسوں میں خطرناک تبدیلیاں دیکھی ہیں خاص طور پر اس کے گلیشیئرز میں پانی کے دباؤ میں اضافہ، زراعت، توانائی اور حیاتیاتی تنوع کی سلامتی کو خطرہ ہے۔
انہوں نے اٹلی کی ایک بین الاقوامی ریسرچ آرگنائزیشن کی ایک حالیہ تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان جو کہ کوہ ہندوکش، قراقرم اور ہمالیائی سلسلوں میں 13000 سے زائد گلیشیئرز کا گھر ہے، ان تبدیلیوں کے منفی اثرات کا خود تجربہ کر چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ہندوکش ہمالیہ خطے کے دیگر علاقائی ممالک میں گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے سے نہ صرف پانی کی حفاظت خطرے میں پڑ گئی ہے بلکہ قدرتی آفات جیسے گلیشیئل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (گلوف) اور زمینی کٹاؤ کے خطرات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
وزارتی تقریب کے دوران بھوٹان، بھارت اور نیپال کے وزراء نے بھی پاکستانی وزیر اعظم کی موسمیاتی معاون رومینہ خورشید عالم کے مشترکہ علاقائی ماحولیاتی خطرات خاص طور پر کمزور پہاڑی برادریوں، ان کے ذریعہ معاش اور ماحولیاتی نظام کو متاثر کرنے والے مشترکہ ردعمل کے مطالبے کی حمایت کی۔