ایمنسٹی انٹرنیشنل کا حکومت سے ’انسداد دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل‘ کی منظوری روکنے کا مطالبہ

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے حکومت پر انسداد دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل 2024 کی منظوری روکنے پر زور دیتے ہوئے مذکورہ ایکٹ کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے منافی قرار دے دیا۔

گزشتہ ماہ حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں ترمیم کا بل ملک کے ایوان زیریں (قومی اسمبلی) میں پیش کیا تھا جس کے تحت فوج اور سول آرمڈ فورسز کو دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے والے افراد کو 3 ماہ تک احتیاطی حراست میں رکھنے کا اختیار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

قومی اسمبلی میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں مزید ترمیم کا بل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر سید غلام مصطفیٰ شاہ نے بل غور کے لیے متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا تھا۔

بل میں مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ارکان پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں (جے آئی ٹی) قائم کرنے کی شقیں بھی شامل کی گئی ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا بابو رام پنٹ نے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ ’ اگر بل منظور ہوجاتا ہے تو یہ پاکستان کی تمام ’مسلح افواج‘ کو وسیع اور صوابدیدی اختیارات دے گا جس کے تحت کسی بھی فرد کو 3 ماہ تک احتیاطی حراست میں رکھا جاسکے گا۔’

خط میں مزید کہا گیا کہ’ سول اور ملٹری ادارے کسی بھی ایسے شخص کے خلاف حراستی احکامات جاری کر سکیں گے جس پر پاکستان کی سلامتی یا دفاع، امن عامہ سے متعلق جرائم میں ملوث ہونے کا شبہ ہو۔’

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے قانون نافذ کرنے والے آپریشنز میں فوج کی شمولیت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’غیر معمولی حالات میں جب فوج کو عارضی طور پر پولیس کی مدد اجازت دی جائے تو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ حکام سول قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ماتحت رہیں اور فوجی اہلکاروں کو انسانی حقوق کے مطابق پولیسنگ کے لیے مناسب ہدایات اور تربیت دی گئی ہو۔‘

مزید برآں، انہیں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی طرح بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین اور معیارات کی پیروی کرنی ہوگی تاہم ترمیم میں مذکورہ کسی چیز کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔

خط کے مطابق حال ہی میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی میں پاکستان کے آئی سی سی پی آر جائزے کے دوران انسدادِ دہشتگردی ایکٹ (اے ٹی اے) توجہ کا مرکز بنا، اس دوران قانون کے اطلاق کے انسانی حقوق کے محافظوں، نسلی اور مذہبی گروہوں کے افراد، صحافیوں، مخالفین اور کارکنوں پر غیرمتناسب اثرات سے متعلق خدشات کو اجاگر کیا گیا۔

انسانی حقوق کے عالمی ادارے کا مزید کہنا تھا کہ ’ایمنسٹی انٹرنیشنل پہلے ہی نشاندہی کر چکی ہے کہ قانون میں بنیادی خامیاں ہیں جسے اس سے قبل پہلی اور چوتھی شیڈول کی پرامن عوامی تحریکوں پر پابندی لگانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے،

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مزید کہنا تھا کہ اس قانون کے ذریعے پاکستانی حکام نے انسانی حقوق کے محافظوں اور سیاسی مخالفین جیسے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے ارکان اور حامیوں کو بلاجواز حراست میں رکھا ہے۔

عالمی ادارے نے مزید کہا کہ ’مجوزہ نظر بندی کے اختیارات سے حکام کی ان خلاف ورزیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوجائے گا۔‘