پہاڑوں پر برف پڑنے کا آغاز ہو چکا ہے اور جہاں برف نہیں پڑی گرج اور چمک کے ساتھ بارش نے دھوم مچا رکھی ہے لیکن میدانی علاقوں میں موسم مسلسل خشک چل رہا ہے ویسے بھی یہ مگھر کا مہینہ ہے جو اپنے مزاج کے لحاظ بے کیف کہرے اوربوجھل دھند کا مہینہ کہلاتا ہے اور اسی بنا پر سینے اور سانس کی بیماریوں کو کھلی چھٹی مل جاتی ہے اور وہ یہاں وہاں من مانی کر تی پھر رہی ہوتی ہیں‘طبیبوں اور حکیموں کے شفاخانوں کی رونقیں اس مہینے دیدنی ہوتی ہیں‘اگر چہ سیانے یہ بات بھی کہتے ہیں کہ اگر کھانسی زکام کیلئے دوا لی جائے تو ”تین ہفتوں“ میں آرام آ جاتا ہے اور اگر دوا نہ لی جائے محض احتیاط اور پرہیز سے کام لیا جائے تو پھر یہ کھانسی ٹھیک ہونے میں پورے ”اکیس دن“ لے لیتی ہے‘ اور وہ جو ہمیں سکول کے زمانے سے سکھایا گیا ہے کہ ”پرہیز علاج سے بہتر ہے“ تو دوست ِ عزیز اور معروف معالج ڈاکٹر انتخاب ؔعالم اس روز مرہ کے سخت خلاف ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگرکوئی بیمار پڑ جاتا ہے تو پھر پرہیز کی نہیں علاج کی ضرورت ہے اور علاج ہی سب سے بہتر ہے ان کی یہ بات اس لئے بھی دل کو لگتی ہے کہ اگر واقعی سارے مریض یہی نسخہ لے کر گھر میں بیٹھ جائیں کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے تو پھر سارے ڈاکٹر‘حکیم اور علاج بالمثل والے طبیب بھی گھر ہی بیٹھ جائیں گے‘ بہر حال یہ مگھر کا مہینہ ہے اس لئے بھی اس مہینے دھند زیادہ رہتی ہے کہ موسم خشک ہو تا ہے البتہ جس دن موسم ابر آلود ہو یا بارش ہو تودوسری صبح دھند نہیں ہوتی ہے یہ اور بات کہ جب موسلا دھار بارش ہو رہی ہو تب دھندتو نہیں ہوتی مگر گرد و پیش کے مناظرضرور دھندلے پڑ جاتے ہیں سجاد بابر نے کہا ہے کہ
بو چھار درختوں میں بہت شور مچائے‘دھندلا نظر آئے
ہلکان ہوں بھیگے ہو ئے ڈر برف گری ہو اور شام مری ہو
اگرچہ مگھر کا آخری پندرھواڑہ شروع ہو چکا ہے وسط دسمبر سے پھر پوہ کا مہینہ شروع ہو جائے گا اور کہا جاتا ہے کہ اس خشک موسم میں وائرل ہونے والی بیماریاں اگر طول پکڑ لیں توپوہ کی یخ بستہ صبحیں اور شامیں اس میں مزید اضافہ کر دیتی ہیں اور پھر آنے والے کئی سال تک انہی موسموں میں ان بیماریوں کا پھیرا لگتا رہتاہے‘ اور ان بیماریوں میں کمی کے لئے بہر حال ان دنوں بارش کی از حدضرورت ہے شنید ہے کہ گزشتہ اتوار کو
پشاور کے مضافات میں کسی گزرتے ہوئے بادل کے چھاگل سے چند بوندیں چھلک پڑی تھیں مگرجانے وہ بادل کس طرف کو نکل گئے تب سے اب تک خشک موسم کی خشک سردی ہے اور بادل ایسے روٹھے ہوئے ہیں کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں اس لئے مگھر اور پوہ کے اثرات سے بوجھل بوجھل دسمبر یار لوگوں کی جان کو آیا ہوا ہے کہ یہ مہینہ ایک طرف شادیوں کے شادیانے بجارہا ہے اور پشاور کی شادیوں کی تقریبات نصف شب کے بھی بعد ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں اور دوسری طرف ادبی تنظیموں کے منتظمین بھی زیادہ فعال ہو جاتے ہیں اور اطراف سے دعوت نامے آنا شروع ہو جاتے ہیں گزشتہ مہینہ میں تو
عجب عالم تھا کہ ایک ہی دن میں دو دو تقریبات میں حاضری دینا پڑ گئی تھی اور رات گئے پھر کسی شادی کی تقریب میں بھی شرکت لازمی ہوتی‘ عام طور پر دن کے پہلے حصے میں تقریبات نہیں ہوتیں کیونکہ حاضر سروس شاعر ادیب جاب پر ہوتے ہیں اور میری طرح کے اپنی اپنی ملازمت کی باری بھگتائے ہوئے دوست دن کے پہلے حصے میں لکھت پڑھت کا کام کرتے رہتے ہیں لیکن اب کے دن کے اوقات میں بھی مجھے کچھ تعلیمی اداروں میں جانا پڑ گیابلکہ ایک معروف سکول میں تو ہمدم دیرینہ ڈاکٹر نذیر تبسم بھی ہمراہ تھے ڈی ایچ اے میں واقع اس سکول کی بیسمنٹ میں یہ تقریب تھی جہاں چلے تو گئے مگر مسلسل چڑھائی والے ٹریک پر چڑھتے ہوئے نذیر تبسم نے مجھے کہا’دو ہزار چوبیس میں پہلی مرتبہ اتنی بلندی نصیب ہوئی ہے‘ میں نے کہا کہ اسے بھی غنیمت سمجھیں کیونکہ محمد علیؔ رشکی نے کہا ہے
یہ منصبِ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
لیکن صبح دس بجے شروع ہونے والی وہ تقریب کہیں دو بجے دوپہر ختم ہوئی اور گھر پہنچتے پہنچتے تین بج گئے نذیر تبسم توؔباوجود خواہش کے پھر گھر سے نہ نکل سکے جب کہ مجھے گھر پہنچتے ہی دوست عزیز امجد عزیز ؔملک کا فون آیا کہ اسلام آباد سے محترم فائز اؔمیر سمیت مہمان آنا شروع ہو گئے ہیں سب آپ کا پوچھ رہے ہیں آپ کہاں ہیں؟ میں نے کہا بس پہنچا‘ در اصل اسی دن تین ہی بجے چائنہ ونڈو میں یار ِ مہربان عتیق احمد صدیقی کی کتاب ”تقویم۔افغان جنگ کے بیس سال“ کی تقریب رونمائی تھی‘ اور چونکہ اس میں ہم سب گھر والوں نے شریک ہونا تھااس لئے میں گھر آیا تھا ورنہ براہ راست چلا جاتا مجھے رفعت علی سیّد نے کہا چونکہ عتیق صدیقی خود موجود نہیں ہیں تو آپ کا جلدی جانا ضروری ہے اس لئے آپ جائیں ہم بھی تھوڑی دیر میں پہنچتے ہیں میں رائیڈ لے کر آ گیا تو بہت سے احباب آ چکے تھے‘ بہت دنوں بعد ایک شاندار ادبی تقریب میں ایک جشن اور میلے کا سماں تھا جسے دیکھ کر میں تو خیر خوش تھا مگربہت ہی محبتی ڈاکٹر گلزار جلال اور امجد عزیز ملک کی خوشی دیدنی تھی کہ ان دونوں دوستوں نے اس تقریب کا اہتمام کیا تھامیری خوشی یہ بھی تھی کہ ڈاکٹر سید امجد حسین جو صبح سے سہ پہر تک مسلسل پشاورمیڈیکل کالج یونیورسٹی میں لیکچر دے رہے تھے مگر اس کے باوجود ہشاش بشاش تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے اور دوسرے دن پشاور میوزیم میں ایک بار پھر ”میرے بچپن کا پشاور“ کے موضوع پر ان کا لیکچر تھا‘ وہ بھی ایک عمدہ تقریب تھی اس دن بھی مجھے صبح ایک سکول میں جانا تھا سہ پہر پشاور میوزیم میں یہ اہم اور بلا کا دلچسپ لیکچر سننا تھا اور پھر وہیں سے تیز بارش میں چند نوجوان دوستوں اور فنا فی الکتب قسم کی ادبی شخصیت اسلم میر ؔکے ہمراہ حلقہ ارباب ذوق پشاور کی تنقیدی نشست میں جا پہنچا‘ سو مگھر کا مہینہ انہی ہنگاموں کے ساتھ ساتھ اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے جو پہاڑوں پر تو مہربان ہے مگر میدانی علاقوں میں بادلوں کا راستہ روکے ہوئے ہے اور ان تک پروین شاکر کی آواز بھی پہنچنے نہیں دے رہا
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے