مسلم دنیا میں زوال پذیر ہدف ممالک کے پاکستان سے مشترکات کا ذکر تو ہوا، اب ہمارے حق میں کیا ہے اس کا ذکر بھی ہو جائے۔ پاکستان کی فوج، لیبیا، شام یا عراق کی طرح غیر منظم نہیں بلکہ ڈسپلنڈ ہے، ایٹمی ہتھیار خوف ناک ترین اثاثہ ہیں لیکن عالمی ادارے مطمئن ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ترین ہاتھوں میں ہیں اور ان کی حفاظت اور احتیاط کا معیار بین الاقوامی سطح کا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں کئی فوجی اور خود سر آمر بھی برسراقتدار آئے مگرسول اور فوجی دونوں حکومتوں نے کبھی اقوام متحدہ کے چارٹر یا اس کی قراردادوں کی خلاف ورزی نہیں کی۔جھوٹ یا سچ، ہم نے ایک پارلیمان اور منتخب حکومت کا حفاظتی غلاف اپنی ریاست پر چڑھا رکھا ہے جس دن ننگی فوجی یا سول آمریت آگئی اس دن پاکستان کا ایٹمی پروگرام فوراً ہدف بن جائے گا۔
دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے جو قومیں سبق سیکھتی ہیں وہی کامیاب ہوتی ہیں۔ اگر لیبیا، عراق اور شام کے عوام حکمران اور فوج متحد ہوتے تو شایدآج ان کا یہ حشر نہ ہوتا۔ پاکستان کو بھی اپنی فالٹ لائنز کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔ خان صاحب کو عالمی مسائل کا شاید اتنا ادراک نہ ہو، ان کو مسلم دنیا کی نازک صورتحال بتانی چاہئے اور سول نافرمانی یا اس طرح کے انتہا پسندانہ اقدامات سے پرہیز کرنے پر قائل کرنا چاہیے۔ دوسری طرف مقتدرہ اور حکومت کوبھی مذاکرات میں نہ صرف پہل کرنی چاہیے بلکہ اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر جیلوں میں بند رہنمائوں کو ریلیف دینا شروع کر دینا چاہیے۔ خان صاحب پاکستان کے بحران کو سمجھتے ہوئے فی الحال مکمل طاقت کی خواہش چھوڑ دیں اور مقتدرہ بھی مرزےجٹ کی طرح گلیوں میں اکیلا پھرنے کی کوشش ترک کردے۔ مصالحت، مفاہمت، لچک، ایک دوسرے کو تسلیم کرنے اور عزت دینے سے دنیا کے مشکل ترین مسائل حل ہو گئے ہیں یہاں تو اقتدار اور طاقت کا چھوٹا سا مسئلہ ہے جو لچک دکھانے سے فوراً حل ہو سکتا ہے۔
غزہ، لبنان، عراق اور شام میں پیش آنے والے واقعات پاکستان کیلئے ایک وارننگ ہیں۔ روس کی طاقت اور ایران کی مدد کے باوجود شام کی حکومت کو غیر منظم باغیوں کے ہاتھوں شکست و ریخت کا سامنا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آج بھی ایک ہی سپر پاور ہے، دوسرا صد ر ٹرمپ کے آنے کے بعد شاید یہ ڈیل طے ہو گئی ہے کہ امریکہ یوکرائن کی حمایت بند کر دے گا اور اسے روس کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا اور جواباً روس، امریکہ کو مڈل ایسٹ میں کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرے گا۔
پاکستان کو اپنے تحفظ اور بچائو کیلئے جہاں مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں وہاں بلوچستان کے مسئلے پر بڑھتے ہوئے نقصانات اور خیبر پختونخوا میں جوانوں کی آئے روز شہادتوں کو دیکھتے ہوئے ان اہم ترین ایشوز پر سیاسی، عسکری اور عوامی مشاورت کرکے کسی حل تک پہنچنا چاہیے گومگو اور چونکہ چنانچہ بہت ہو چکی، وقت نازک، معاملہ سنگین اور خطرناک ہے اس لئے ایمرجنسی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔