لے کو مد ّھم نہ کرو رقص کرو

پشاور میں ادبی و ثقافتی سرگرمیوں سے لیکر سیاسی سرگرمیوں کیلئے ایک ہی بڑا ہال نشتر ہال ہے، اس ہال نے بھی گزرتے وقت کے ساتھ دھوپ چھاؤں کے بہت سے کھیل دیکھے ہیں، اباسین آرٹس کونسل پشاور کے اوپن ائیر ہال کی حالت زار نے ارباب اختیار کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی اور یوں نشتر ہال کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا، یہ اور بات کہ جب یہ خواب شرمندہئ تعبیر ہوا تو کچھ تکنیکی مسائل ڈھونڈے گئے اور اباسین آرٹس کونسل کو اس ہال کے انیکسی ٹائپ ایک کونے تک محدود کر کے ایک نئی کونسل (سرحد آرٹس کونسل) بنا کر نشتر ہال کا سارا انتظام اور انصرام اس کے حوالے کر دیا گیا کلچر ڈیپارٹمنٹ نے اس کا افتتاح تو خوب کیا یعنی نشتر ہال کا افتتاح ایک شاندار ثقافتی پروگرام سے ہوا جس میں مقامی فنکاروں کے ساتھ ساتھ مہدی حسن اور فریدہ خانم کو بھی بلایا گیا تھا اور میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ اس شو کا ہوسٹ میں تھا گویا پہلے ہی دن سے اس ہال کے ساتھ جڑ گیا تھا، بعد کے زمانوں میں بھی نہ صرف کلچر ڈیپارٹمنٹ اور نجی تنظیموں کے ثقافتی شوز بلکہ اباسین آرٹس کونسل کے بھی ان گنت شوز کی میزبانی کا مجھے موقع ملا حالانکہ تب تک میں اباسین آرٹس کونسل کا ممبر بھی نہ تھا جس نجی تنظیم نے گزرے برسوں میں اس ہال کو بہت زیادہ فعال بنائے رکھا تھاوہ تنظیم فرنٹئیر آرٹس پروموٹرز تھی اس تنظیم کے اراکین میں اس وقت ادب و ثقافت سے جڑے ہوئے اور ادب و ثقافت سے محبت کرنے والے کئی زعما شامل تھے جن میں ثناؤاللہ بابر، شیر احمد سیٹھی حاجی جاویداور عارف شبنم جیسے دوست بھی تھے جب کہ تنظیم کے سیکریٹری امجد عزیز ملک تھے جو آج کی طرح کل بھی بہت متحرک نوجوان تھے میں تنظیم کا صدر تھا اور اسے خود ستائی پر محمول نہ کیا جائے مگر سچ اور پورا سچ یہی ہے کہ اباسین آرٹس کونسل کے اوپن ائیر تھیئٹر میں نذیر نیازی، یعقوب رومی اور ان کے رفقا کے ترتیب دئیے گئے کئی بہت ہی عمدہ اور یاد رکھے جانے والے سٹیج ڈراموں جن میں پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے بھی ڈرامے شامل تھے مگر پھر کئی برسوں پر محیط ایک طویل خاموشی کو نشتر ہال بننے کے بعد فرنٹیئرآرٹس پروموٹرزکے مسلسل سٹیج ہونے والے اردو اور پشتو کے شاندارڈراموں نے توڑا، ہم نے لاہور سے سٹیج ڈرامہ رائٹر، ڈائریکٹر اور فنکاروں کے ساتھ منگوایا اور کچھ بڑے فنکاروں کو پنج ستاری ہوٹل میں بھی ٹھہرایا اور مسلسل نو دن تک جاری رکھا ان نو دنوں میں ایک دن دو شوز کرائے یوں دس مسلسل شوز کا ایک ریکارڈ بنا جو اس سے پہلے تو خیرکیا ہونا تھا مگر بعد میں اب تک کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ اعزاز برقرار ہے، اس تنظیم نے یکے بعد دیگرے پشتو کے دسیوں ہاؤس فل ڈرامے کم از کم ایک 
ایک ہفتہ تک سٹیج کئے، پھر اسی نشتر ہال کے سٹیج سے پی ٹی وی کے نیلام گھر کے طرز پر کوئز شوز کا آغاز کیا، جس شو کا طارق عزیز (کوئز ماسٹر) میں تھا، یہ بھی سٹیج کی حدتک ایک ریکارڈ ہے اس کیلئے ہم نے کراچی اور لاہور سے مہمان اور مہان شخصیات کو پشاور بلایاجن میں انصار برنی، باکسر حسین شاہ، محبوب عالم (ڈرامہ وارث کا چودھری حشمت) اور قراۃالعین حیدر جیسے قد کاٹھ کے فنکار بھی شامل تھے اور پہلی بار نشتر ہال کے سٹیج سے اہل پشاور کو ہزاروں روپے کے قیمتی انعامات دئیے گئے، پہلی بار کی بات چلی ہے تو اسی ہال میں پہلی بار فرنٹیئر آرٹ پروموٹرز نے معین اختر شو کیااور غزل نائٹ میں پہلی بار پشاور صوفی گائیکہ عابدہ پروین کو بلایا یہ شو ایک سگریٹ برینڈ گولڈ لیف کے اشتراک سے پیش کیا گیا تھا، بلکہ اس کے بعد اسی ادارے کے ایک اور برینڈ ولز سے امجد عزیز ملک نے ایک ایسا پراجیکٹ حاصل کیا 
جس کے تحت ہم نے صوبہ بھر میں کئی بڑے شہروں میں اوپن ائیر میوزیکل نائٹ شوز کئے میرے ساتھ صرف گلریز تبسم، الماس خلیل اور سید رحمن شینو ہوتے اور ہم نے بیس بیس ہزار کے مجمع میں چار چار پانچ پانچ گھنٹے کے شوز کئے تھے، لطیفہ یہ بھی ہوا کہ ان دنوں پی ٹی وی سے میرا اور افراز علی سید کا ایک سوک سپاٹ(انٹی سموکنگ سپاٹ) بہت چل رہا تھا جس میں باپ کو سگریٹ پیتے دیکھ کر بچہ اپنی سگریٹ سلگانے لگتا ہے جس پر کیپشن آتا ہے کہ ”بچے بڑوں سے اثر لیتے ہیں“ یہ ایک بہت ہی پر اثر سپاٹ تھا کیونکہ واقعی کئی لوگوں نے سگریٹ پینا چھوڑ دیا تھا تو کچھ احباب نے میرے بارے میں کہنا شروع کیا کہ ایک طرف تو موصوف ٹی وی پر سگریٹ کے خلاف کام کر رہے ہیں اور دوسری طرف شہر شہر جا کر ایک کمپنی کے سگریٹ برینڈ کی تشہیر کرتے پھر رہے ہیں (آج کا زمانہ ہو تا تو ساتھ یہ پخ بھی لگا دیتے کہ ”کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے“) میں توجواب میں مسکرا کر یہی کہتا کہ دیکھیں ہم تو بڑے شہروں سے دور دراز کے رہنے والوں کی دہلیز پر ان کی تفریح کیلئے موسیقی اور مزاح سے مملو پروگرام لے کر جا رہے ہیں، خیر فرنٹئیر آرٹس پروموٹرز کا ایک اور کارنامہ جو 
اب تک پہلا بھی ہے اور آخری بھی ہے وہ نشتر ہال کے سٹیج پر ”جشن تمثیل“ منانا ہے جب مختلف تنظیمیں ہفتہ بھر ہر شام اپنے ڈرامے پیش کیاکرتی رہی ہیں اس کیلئے ہم نے ایکٹنگ، ڈائریکشن اور رائٹنگ کے شعبے سے کچھ معتبر دوستوں کی جیوری بنائی تھی جنہوں نے تینوں شعبوں کے حوالے سے بہترین فنکار، رائٹر اور ڈائریکٹر اور پھر سب سے عمدہ ڈرامے کو چننا تھا جنہیں ایک خطیر رقم بطور انعام دی گئی یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ اس جشن تمثیل میں ایک ڈرامہ ”نو پرابلم“ بھی پیش ہوا تھا جسے پزیرائی تو ملی مگر اسے انعام اس لئے نہیں ملا کہ میں نے آغاز ہی میں جیوری کو بتا دیا تھا کہ اس ڈرامہ کی تحریر اور ہدایات چونکہ میری ہیں اور اس کی پیشکش میزبان تنظیم فرنٹئیر آرٹس پروموٹرز کی ہے اس لئے یہ ڈرامہ مقابلہ میں شریک نہیں ہو گا، چنانچہ جب جیوری کی طرف سے آخری دن نتائج سنانے کیلئے میں نے عتیق احمد صدیقی کو دعوت دی تو انہوں نے سٹیج پر آ کرکہا کہ میں بھاری دل سے یہ اناؤنسمنٹ کرنے جا رہا ہوں کہ ایک بہت اچھے ڈرامہ کو کس لئے مقابلہ سے باہر کر دیا گیا ہے اور پھر انہوں نے میرے ڈرامہ کے مکالموں اور ڈائریکشن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انعام نہ سہی مگر ڈرامہ پر بات کرنے کی تو کوئی پابندی نہیں ہے اس کے بعد ہم نے پہلی بار ڈینز ہوٹل (اب پلازہ) میں ایک ڈرامہ سیمینار کا اہتمام بھی کیا جس کے بہت عرصہ بعد پی ٹی وی پشاور مرکز سے بھی ڈرامہ پر ایک سیمینار ہوا، اباسین آرٹس کونسل نے اقبال اعوان مرحوم کے کئی ایک شاندار میوزک شوز کے بعد مشتاق شباب کے سیکرٹری شپ کے زمانے میں موسیقی کے کچھ یادگار شوز ترتیب دئیے گئے(خوش قسمتی سے تب میں میوزک ایڈوائزر تھا) اور مشتاق شباب نے خود سٹیج ڈرامے بھی کئے(تب وہ ڈرامہ ایڈوائزر تھے) اور ایک ڈرامہ تو اتنا عمدہ تھا کہ اسے پی این سی اے نے منگوا کرراولپنڈی میں سٹیج کرایا اور اسے بہت پزیرائی حاصل ہوئی، کچھ عرصہ پہلے بھی اباسین آرٹس کونسل نے عزیز اعجاز کی ڈائریکشن میں بھی دو ایک ڈرامے پیش کئے، بات اباسین آرٹس کونسل کے ادب، ڈرامہ، موسیقی اور مصوری کے شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے کی بھی ہے اور نشتر ہال کو آباد رکھنے کی بھی ہے، تاہم جس کام کیلئے یہ ہال تعمیر ہوا تھاوہ کام جس شد و مد سے ہونا چاہئے تھاشاید ایسا نہیں ہوا یا پھر وقفے تکلیف دہ حد تک طویل ہو جاتے ہیں، اب عسکری اداروں کی دلچسپی اور تعاون سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تو ہے تو ایسے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اب تھکنا نہیں ہے رکنا نہیں ہے ادب و ثقافت کایہ میلہ اور یہ جشن جاری رہنا چاہئے۔ اپنا ہی ایک شعر یاد آ گیا۔
سانس کے پاؤں میں گھنگھرو بو لیں 
لے کو مدھم نہ کرو رقص کرو