مادر علمی کی عظمت رفتہ

جامعہ پشاور کی عظمت رفتہ کی کوششیں تب کامیاب اور نتیجہ خیز ہوں گی کہ یونیورسٹی سے منسلک ہر فرد بشمول طلباء اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے‘ بصورت دیگر یہ خدشہ بے جا نہیں ہوگا کہ موجودہ منتظم انتظامیہ نے عین دفاتر یا ایڈمنسٹریشن بلاک میں پارکنگ ختم کرکے وہاں پر جو پھول رکھے ہیں وہ مرجھاتے ہی اس نئے سسٹم کا خاتمہ بھی بالکل اسی طرح ہو جائے جیسے ایڈمن بلاک میں حاضری اور واپسی کیلئے نصب کیا گیا بائیو میٹرک سسٹم محض اس لئے ناکام ہوا کہ آتے جاتے وقت صرف کلاس تھری اور کلاس فورکیلئے انگوٹھا لگانا لازمی تھا جبکہ افسران اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتے رہے بہرکیف ابھی ابتداء میں تو حالت اس لئے حوصلہ افزاء بلکہ مثالی ہے کہ وائس چانسلر بھی گاڑی کھڑی کرکے متعین شدہ حد سے آگے اپنے دفتر میں پیدل جارہے ہیں ویسے سلیقہ شعار لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ یہ طریقہ برقرار رہے میرے نزدیک تو عظمت رفتہ کی بحالی کی کوششیں تین عشرے قبل اس وقت شروع کرنی چاہئے تھیں جس وقت اسلامیہ کالج بھی جامعہ کا حصہ تھا اس وقت رکشوں‘ پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں‘ ٹیکسی ہتھ ریڑھیوں اور ریس اور سکریچنگ کی بھرمار نہیں تھی‘ چلئے رکشہ سروس تو ممنوع ہوگئی اور ساتھ ہی ریڑھوں اور ٹھیلوں میں بھی کمی واقع ہوگی لیکن یہ رکشوں کی جگہ ٹیکسی بائیک رائیڈر نے پرکرلی ہے‘گرلز ہاسٹلوں کی دہلیز پر ٹیکسی گاڑیوں اور وہ بھی غیر قانونی یعنی پرائیویٹ ٹیکسیوں نے جو اڈے قائم کرلئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ناقابل استعمال پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں نے یونیورسٹی کا ماحول جس قدر تباہی سے ہمکنارکردیا ہے اس کا کیا بنے گا؟ ان گاڑیوں میں ناقص گیس سلینڈروں کی شکل میں بم بھی پھر رہے ہیں‘ یعنی نہایت ہی رسک والا معاملہ ہے مگر انتظامیہ اور پولیس نے کبھی بھی یہ زحمت گوارا نہیں کی کہ فٹنس سرٹیفیکیٹ طلب کرلیں‘ عظمت رفتہ کی بحالی میں مذکورہ بالا مسائل بلکہ خامیوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا باقی رہی مالیاتی ابتری کی بات تو میرے خیال اب یہ مسئلہ حل نہیں بلکہ دیرپا لگتا ہے حالت یہ ہے کہ قدیم درسگاہ کے ملازمین کو اگست کی تنخواہ تین ہفتے ستمبر کی دو ہفتے اکتوبر کی 10دن اور نومبر کی چھ روز بعد ملی‘ ایسے میں کرسچن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ملازمین بے چارے اپنے کرسمس کے تہوار پر دسمبر کی پیشگی تنخواہ اور عید ایڈوانس دونوں کیلئے منتظر رہے مگر ان کی یہ خواہش ادھوری پوری ہوگی یعنی صرف ایڈوانس مل گیا کیونکہ یونیورسٹی بلکہ ساری پرانی یونیورسٹیاں تو عرصہ سے جس مالی بحران سے گزر رہی ہیں اس نے مالیات سے متعلق بہت سی روایتوں کو بھی خیرباد کہہ دیا ہے‘ کرسچن ملازمین تو خوش نصیب ٹھہرے ورنہ مسلم ملازمین کو تو ایسے مواقع پر پیشگی تنخواہ اور ایڈوانس ملنے کا سلسلہ کب کا ختم ہو چکا ہے‘ وجہ یہ ہے کہ ابھی امسال وفاقی حکومت کی طرف سے تاحال جتنی بھی گرانٹ ملی ہے وہ ویسے ہوتی ہے تین مہینوں کی قسط مگر یونیورسٹی کے ایک مہینے کے اخراجات کیلئے بھی ناکافی ہوتی ہے یہی حالت صوبائی گرانٹ کی بھی ہے بلکہ اس سے ابتر کیونکہ پہلے تو ملتی نہیں اور اگر سال بھر کہیں ایک آدھ مرتبہ مل بھی جائے تو اس سے یونیورسٹی محض چند دن چل سکتی ہے تو ایسے میں محض سجاوٹ پر اکتفا کرنا پڑے گا؟۔۔