پی آئی اے کی معاشی خستہ حالی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس کے پاس جو 34 جہاز ہیں ان میں صرف 12 قابل استعمال ہیں‘اس میں ملازمین کی اتنی بھر مار ہے کہ اس کے 7300 ملازمین کی فوج ظفر موج پر ہی صرف تنخواہوں کی مد میں 35 ارب روپے ادا کئے جاتے ہیں‘اب ان حقائق کی روشنی میں اس کی نجکاری کے عمل میں بہتر بولیوں کی امید رکھنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہی ہو سکتا ہے‘کاش کہ اسے مستقبل میں ائر مارشل اصغر خان اور نور خان جیسے سربراہ نصیب ہو جائیں کہ جو اس کی ڈوبتی ہوئی نیا کو مکمل طور پر ڈوبنے سے بچا لیں اور ایک مرتبہ پھر ہماری قومی ائر لائن کا دنیا کی 6بہترین ائر لائنز میں شمار ہونے لگے‘کیا یہ حقیقت نہیں کہ پی آئی اے کی پروفیشنل صلاحیتوں پر کئی عرب ممالک کو اتنا اعتبار تھا کہ انہوں نے اس کے ٹیکنکل سٹاف سے اپنے اپنے ملک کی ائر لائنز قائم کرنے کے لئے مدد مستعار لی تھی ۔ یاد رہے کہ کمرشل ادارے صرف اسی صورت میں مالی طور پر پنپ سکتے ہیں کہ اگر ان کو کمرشل اصولوں کے تقاضوں کے مطابق چلایا جائے اگر کوئی ادارہ ایک سو افرادی قوت سے ڈلیور کر سکتا ہے تو اس میں دو سو افراد کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کرنا زیادتی ہو گی‘اسی طرح کسی ادارے میں افرادی قوت کی سلیکشن میں میرٹ کو پامال کرنا ا س ادارے کی بیخوں میں پانی دینے کے مترادف ہو گا۔پرنٹ میڈیا میں یہ خبر تو چھپ رہی ہے کہ سال گزشتہ کے دوران 28 ہزار پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ لینے کی درخواستیں دی ہیں‘بہتر ہوتا ا گر اس خبر میں یہ وضاحت بھی کر دی جاتی کہ ان میں کتنے افراد نے معاش کی تلاش میں یہ قدم اٹھایا ہے اور ان میں کتنے ایسے افراد شامل ہیں کہ جو کسی اور وجہ سے اپنا ملک چھوڑنا چاہتے ہیں‘یہ امر قابل افسوس ہے کہ یوں تو اس ملک میں گزشتہ بیس سال میں برسر اقتدار آ نے والی ہر حکومت نے لوکل گورنمنٹ کی افادیت کو تسلیم کیا ہے پر کسی نے بھی صدق دل سے بلدیاتی اداروں کو مالی طور پر صحیح معنوں میں خود مختیار نہیں کیا اس لئے بلدیاتی نظام ملک میں جڑیں نہیں پکڑ سکا اب بھلا کوئی اراکین صوبائی اسمبلیوں سے یہ تو پوچھے کہ بھئی آپ کا کام تو قانون سازی ہے آپ کا گلی کوچوں کی نالیوں کی صفائی سے کیا لینا دینا‘آپ ضلع کچہری کی سیاست میں الجھ کر اپنا وقت خواہ مخواہ ضائع کیوں کر رہے ہیں۔افغانستان ہمارا قریبی ہمسایہ ہے اور ہمسایوں کے ساتھ بنا کر نہ رکھنا کوئی دانشمندانہ فعل نہیں ہوتا پر کابل کے حکمرانوں کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ پاکستان زندگی کے ہر میدان میں افغانستان کی حتی المقدور امداد صرف اسی صورت میں آئندہ کرے گا اگر وہ بھارت کی یا کسی اور پاکستان دشمن ملک کی شہہ پر پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ نہ دے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ پاکستان میں افغانیوں کی آ مد و رفت کو ایک ایسے ویزا سسٹم کے تابع کر دے کہ جو مثال کے طور برطانیہ اور امریکہ میں غیر ملکیوں کے دخول کے لئے نافذ ہے‘ تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری اور ہر نتھو خیرے کو پاکستان میں دخول کی کھلی چھٹی نہ ہو اور پھر ایک مرتبہ پاکستان میں داخل ہو کر کہیں اور بھاگ جانے کا موقع نہ مل سکے‘اس طریقہ کار سے کسی بھی مشکوک فرد کو وطن عزیز میں دہشت گردی کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔
۔آج کل ہر دوسرا پاکستانی یہ سوال کر رہاہے کہ ہم تو اپنا حق ہمسائیگی ادا کر رہے ہیں‘پر اس کے بدلے میں کابل کے حکمرانوں نے ہر معاملے میں ہمیشہ ہم پر بھارت کو ترجیح دی اور وہ یہ بھول گئے کہ پاکستان اور افغانستان تو مذہب‘ زبان اور رواج میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔