اقوام متحدہ کا وجود --- امن کی ضرورت 

جب تک وطن عزیز میں مکمل طور  پر ممنوعہ بور کے اسلحہ کے استعمال پر پابندی نہیں لگائی جاتی اور پرائیویٹ ہاتھوں سے اس مہلک اسلحہ کو  واپس لینے کے واسطے مناسب قانون سازی اور اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ملک کو  دہشت گردی کی لعنت سے پاک نہیں کیا جا سکتا نہ جانے یہ چھوٹی سی بات ارباب بست و کشاد کی سمجھ میں کیوں نہیں آ  رہی ہے‘ کلاشنکوف جیسے مہلک ہتھیار صرف اور صرف افواج پاکستان اور ملک میں امن و عامہ قائم رکھنے والے اداروں کے پاس ہونے چاہئیں ہر نتھو خیرے کے ہاتھوں میں ان کا کیا کام‘اگر کوئی فرد دشمن دار ہے اور اپنی جان کی حفاظت کے لئے اپنے پاس اسلحہ رکھنا چاہتا ہے تو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضروری تحقیقات کے بعد اگر ضروری سمجھے تو اسے غیر ممنوعہ بور کا ریوالور یا پستول کا آ رمز لائسنس جاری کر سکتا ہے آپ یقین کریں‘ آج وطن عزیز کے ہر دوسرے گھر میں آپ کو بغیر پرمٹ بھی ایک بڑی تعداد میں ممنوعہ بور کا اسلحہ ملے گا۔‘ وہ دس برس سے اس دھندے میں ملوث تھا درجنوں مقدمات درج تھے ہر بار بچ نکلتا۔روسی صدر پیوٹن کا یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ روس امریکہ کے نو منتخب صدر سے یوکرائن جنگ پر سمجھوتے کیلے تیار ہے‘ اگر یہ ملاقات طے پا جاتی ہے تو اس اس سے تیسری عالمگیر جنگ کا خطرہ کافی حد تک ٹل سکتا ہے‘گو اس کے لئے پہلا قدم امریکہ کو  اٹھا کر تائیوان کی ہلہ شیری ختم کرنا ہو گی کیونکہ تا دم تحریر امریکہ کا  تائیوان کو جدید اسلحہ سے لیس کرنے کا اس کے خلاف اور کیا مقصد ہو سکتا ہے کہ وہ اس قابل ہو جائے کہ چین کو آ نکھیں دکھا سکے۔ عالمی ڈپلومیسی میں امریکہ کا دوغلا پن اب اظہر من الشمس ہو چکا ہے اور یہ دوغلا پن کسی وقت بھی تیسری عالمگیر جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔  پولیٹیکل سائنس کی زبان میں تائیوان اگر چین کی ریڈ لائن ہے تو یوکرائن روس کی ہے‘ افسوس یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد ماضی میں جس طرح اس وقت کی بعض  سپر پاورز کی ہٹ دھرمی کے ہاتھوں لیگ آف نیشنز ایک غیر موثر ادارہ بن گیا تھا اور اس کی حیثیت ایک ڈی بیٹنگ debatingکلب سے زیادہ نہ تھی جو انجام کار اس کے ثحلیل ہونے کا سبب بنی‘ بالکل آج اسی طرح  اقوام متحدہ بھی ایک عرصے سے غیر موثر ہوتا جا رہا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ چین کے علاوہ دیگر سپر پاورز یعنی امریکہ وغیرہ کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے‘اس کارن کئی ممالک کا اب اس سے اعتبار اٹھ رہا ہے اور یہ اس کے مستقبل کے واسطے کوئی نیک فال نہیں ہے‘پر یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ باوجود اس خامی کے کہ اقوام متحدہ نے بعض اچھے کام بھی سرانجام دئیے ہیں جیسے اپنے امن مشن کی افواج سے افریقہ میں کئی مقامات پر ممکنہ جنگوں کو روکنا قدرتی آفات کے شکار ممالک  میں معمولات زندگی کی بحالی کے کام وغیرہ اور یہی غالباً وہ باتیں ہیں جن کی بنا پر کئی ممالک اور اقوام کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کے وجود کا قائم رہنا اس کے نہ رہنے سے بہتر ہے۔ جو لوگ سوشل میڈیا پر بندش لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں ان کی یہ منشا ہر گز نہیں ہوتی کہ آزادی رائے پر کوئی قدغن لگا دی جائے وہ اس قسم کا مطالبہ اس لئے کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر جو مواد دکھایا جا رہا ہے اس میں اکثر  اخلاقی طور پر قابل اعتراض ہوتاہے‘ جس سے نئی نسل بے راہ روی کا تیزی سے شکار ہو رہی ہے اور یہ امر والدین کیلئے یقینا پریشانی کا باعث ہے‘ کوئی بھی ماں باپ اپنے بال بچوں کامستقبل تاریک ہوتے نہیں دیکھ سکتا؛یہ بات عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے کہ آ خر قابل اعتراض  مواد پر پر پابندی لگانے میں کیا قباحت ہے‘یہ درست ہے کہ سنسرشپ کوئی اچھی شے نہیں سمجھی جاتی‘پر بسا اوقات اس کو بروئے کار لانا ضروری ہو جاتا ہے‘کبھی کبھار زہر کو زہر سے ہی مارا جا سکتا ہے‘ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ معاشرے میں جنسی جرائم کی ایک بڑی وجہ  میں سوشل میڈیا پیش پیش ہے‘ ان پر  دکھائے جانے والے تفریحی ڈرامے یا فلمیں ہیں جو نئی نسل کو  ہر لحاظ سے برباد کر رہی ہیں۔آسٹریلیا کی حکومت نے حال میں 16 سال سے کم عمر کے بچوں پر سوشل میڈیا اور موبائل وغیرہ دیکھنے پر پابندی اس لئے لگا دی ہے کہ اسے احساس ہو گیا ہے کہ حد درجہ مادر پدر آزادی نئی نسل کو گمراہ کر رہی ہے۔‘ اگر پڑھے لکھے متقی اور ہر ہیز گار افراد پر مشتمل سنسر بورڈ تشکیل دے  دئیے جائیں تو سوشل میڈیا کے ذریعے بے حیائی کے پھیلا ؤکو کافی حد تک روکا جا سکتا ہے۔یہ افسوس کا مقام ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام کرنے سے باز نہیں آ رہا ہے‘۔ وطن عزیز کے سیاسی حلقوں میں یہ غلط تاثر عام ہو رہا ہے کہ ٹرمپ کے آ نے کے بعد پاکستان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی رونما ہونے والی ہے اس قسم کی سوچ کے حامل لوگ اس خوش فہمی میں نہ رہیں ایسی کوئی بات بھی نہیں ہونے والی‘ نیا امریکی صدر اپنے مفاد کو دیکھے گا۔