قدیم درسگاہ سے بھی دو سالہ بیچلر اور تین سالہ ایل ایل بی کا بالآخر خاتمہ ہوگیا‘ ابھی26دسمبر سے ان دونوں پروگرامات کا آخری امتحان شروع ہوگا اس سے قبل دو سالہ ماسٹر پروگرام بھی ختم ہو چکا ہے جبکہ دو سالہ فاصلاتی نظام تعلیم کو بھی کئی سال ہوگئے کہ الوداع کہا گیا ہے‘یہ دراصل اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی پالیسی کے تحت ہو رہا ہے‘ہاں وہی کمیشن جو گزشتہ سال سے یکے بعد دیگرے صوبے کی سرکاری جامعات کو یہ مراسلہ تھما دیتا ہے کہ اب آپ جانے اور آپ کی صوبائی حکومت‘کیونکہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد اعلیٰ تعلیم یعنی یونیورسٹیاں بھی صوبوں کو دے دی گئی ہیں۔بہت خوب‘ یہ ہے غالباً وہ صوبائی خود مختاری جس کے ہاتھوں جامعات کا بیڑا غرق کردیا گیا‘مطلب وفاقی حکومت نے اپنے آپ کو بری الذمہ کر دیا اور صوبائی حکومت اونر شپ کی ذمہ داری سنبھالنے کو آمادہ نہیں لہٰذا یونیورسٹیوں کی حالت کچھ اس قدر دیدنی ہوگئی کہ ملازمین کو بروقت تنخواہ کی ادائیگی کی پوزیشن میں بھی نہیں رہیں‘ اسی مالی بدحالی کا نتیجہ ہے کہ یونیورسٹی ملازمین کو عیدین پر چلنے والا عید ایڈوانس اب قصہ پارینہ بن گیا ہے یہاں تک کہ امسال تو پشاور یونیورسٹی کیمپس کی ایک یونیورسٹی نے کرسچن ملازمین کو کرسمس کیلئے ایڈوانس دوسری یونیورسٹیوں سے قدرے کم تب دیدیا کہ وہ تین دن کام کاج کو خیر باد کہتے ہوئے سڑک پر بیٹھ گئے۔ تو بات ہو رہی تھی غرباء و مساکین کی چھٹی یعنی دو سالہ بیچلر ماسٹر اور فاصلاتی نظام تعلیم کے پروگرامات کو الوداع کہنے کی‘دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان غریبوں پر حصول تعلیم اور جاب میں آگے بڑھنے کے دروازے بند ہوگئے جو میٹرک یا ایف اے کے بعد کسی یونیورسٹی‘ ایجنسی یا دفتر میں بھرتی ہو کر پرائیویٹ طور پر نوکری
کیساتھ ساتھ بی اے اور ایم اے تک پہنچ کر اپنی حالت زندگی اور حالات کار میں بہتری کیلئے کوشش کرتے رہے‘ درحقیقت یہ تبدیلیاں دیکھا دیکھی اور ترقی یافتہ اقوام سے ہمسری کی ناکام کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں‘ اب بی ایس چار سالہ پروگرام میں تو ایک طرف پرائیویٹ داخلے کی گنجائش نہیں تو ساتھ ہی داخلہ اور سمسٹر فیسوں کی ادائیگی کا تو کوئی غریب کلاس فور یا بیروزگار تصور بھی نہیں کر سکتا‘ میرے خیال میں پالیسی سازوں اور باری باری اقتدار میں آنے والوں کی سوچ یہ ہوگی کہ غرباء و مساکین کو تعلیم کی کیا ضرورت ہے وہ تو ویسے بھی بیروزگاری کسمپرسی اور پھر زیادہ سے زیادہ ان کے جلسوں میں نعرہ بازی اور ہلڑ بازی کیلئے پیدا ہوئے ہیں‘اس وقت تک جب دو سالہ ماسٹر بیچلر اور فاصلاتی نظام تعلیم میں پرائیویٹ داخلے کادروازہ بند نہیں تھا انہی سرکاری یونیورسٹیوں میں ایسے لوگ دیکھے گئے ہیں بلکہ اب بھی حاضر سروس ہیں کہ نائب قاصد یا جونیئر کلرک کے طور پر بھرتی ہوئے اور پھر جاب کیساتھ ساتھ پرائیویٹ امیدوار کے طور پر حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے افسران بن گئے جبکہ کئی ایک نے پی ایچ ڈی بھی کرلی‘ہمارے لئے تو دیکھا دیکھی اور ترقی یافتہ اقوام سے ہمسری کا مرحلہ تب آئے گا جب ہمارے ہاں تعلیم ہمارے نظام اور ہمارے صاحب اختیار لوگوں کی ترجیحات میں شامل ہو جائے‘جس ملک کی جامعات اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے سے بھی قاصر ہوں اور بے چارے پنشنرز اپنی عمر کے آخری ایام میں پنشن کے حصول کیلئے مارے مارے پھر رہے ہوں‘ وہاں پر دیکھا دیکھی کا شوق اور ان اقوام سے ہمسری کی سوچ ایک مذاق یا اپنے آپ کو ورغلانے کے سوا کچھ نہیں مانا جائے گا جن اقوام کی یونیورسٹیاں خلائی‘ کیمیائی اور جنیاتی تحقیق میں ساری دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں اور ان میں ایسی جامعات بھی ہیں جن کا سالانہ بجٹ اگر ہمارے قومی بجٹ کے برابر نہ ہو تو کم از کم صوبائی بجٹ سے تو زیادہ ہوگا۔