دنیا میں یوں تو ہر ملک کا اپنا ریڈیو سٹیشن ہے پر ریڈیو براڈ کاسٹنگ میں جو مقام بی بی سی ریڈیو کو حاصل ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آ یا ٹیلی ویژن کے عالم وجود میں آ نے کے بعد اکثر ممالک کے ریڈیو سٹیشن پس منظر میں چلے گئے‘ پر بی بی سی ریڈیو کا آج بھی وہی پرانا مقام اپنی جگہ قائم ہے اور بی بی سی ٹیلی وژن کے عالم ظہور کے آنے کے بعد بھی اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا‘ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عوامی مقبولیت کے لحاظ سے بی بی سی ٹیلی ویژن کے تمام پروگراموں سے زیادہ سننے والے پروگرام کا نام ہےtoday ٹو ڈے ہے جو بی بی سی ریڈیو سے نشر ہوتا ہے اور جس کی مقبولیت پر کسی اور پروگرام نے اثر نہیں ڈالا اور برطانیہ کے عوام آج بھی اسے اسی شوق اور انہماک سے سنتے ہیں کہ جس لگن کے ساتھ وہ اسے آج سے پچاس سال قبل سنا کرتے تھے‘64ء تک کہ جب پی ٹی وی منظر عام پر نہیں آیا تھا ریڈیو پاکستان ہی وطن عزیز کا واحد نشریاتی ادارہ تھا جو ملک کے کونے کونے میں سنا جاتا تھا شکیل احمد مسعود تابش اور انور بہزاد اس کی خبروں کے پروگرام کے روح رواں تھے جو ہر گھنٹے کے بعد قومی نشریاتی رابطے پر قومی اور عالمی خبروں پر مشتمل خبریں براڈ کاسٹ کرتے جنہیں سامعین بڑے شوق سے سنتے اسی طرح اسلم اظہر ریڈیو پاکستان سے انگریزی زبان میں خبریں پڑھتے‘ کرکٹ ٹیسٹ میچوں پر عمر قریشی اور جمشید مارکر کی جوڑی جو رننگ کمنٹری نشر کرتے اس کا شمار بھی ریڈیو پاکستان کی مقبول ترین نشریات میں ہوتا تھا‘ زید اے بخاری کا نام لئے بغیر ریڈیو پاکستان کا ذکر نامکمل رہے گا‘بطور ایک اعلیٰ درجے کے براڈکاسٹر ان کا ایک اپنا مقام ہے جوہمیشہ یاد رکھا جائے گا‘ ان کے کئی شاگرد براڈکاسٹروں نے فلمی دنیا میں بھی نام کمایا جیسا کہ آ غا طالش‘ محمد علی‘ مصطفےٰ قریشی ابراھیم نفیس وغیرہ۔ریڈیو پاکستان کے سامعین یہ محسوس کرتے ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے ارباب بست و کشاد ریڈیو پاکستان کو اتنی اہمیت نہیں دے رہے کہ جتنی وہ پی ٹی وی کو دے رہے ہیں حالانکہ ریڈیو نشریات کو سننے والوں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔
اب ذکرہو جائے بعض اہم سیاسی واقعات کا‘ برطانیہ کے وزیراعظم سر ونسٹن چرچل کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ رات برہنہ حالت میں سوتے تھے یہ بات اس وقت سامنے آئی جب وہ امریکہ کے دورے پر تھے اور وائٹ ہاؤس میں ان کا قیام تھا اس وقت کے امریکی صدر روزویلٹ کے کمرے کے ساتھ ان کا سونے کا کمرہ تھا‘ روزویلٹ کی ایک دن جب صبح آنکھ کھلی تو وہ چونکہ پاؤں پر چلنے سے معذور تھے وہ اپنی وہیل چیئر wheel chairپر بیٹھ کر اس کمرے کی طرف گئے کہ جہاں چرچل رات کو سوئے تھے تاکہ ان سے کوئی گپ شپ لگا سکیں کیونکہ وہ ان کے ذاتی دوست بھی تھے جوں ہی انہوں نے دروازے پر دستک دی تو دروازہ کھلا تووہ چونک پڑے‘اسی تناظر میں ایک مرتبہ ہاؤس آف کامنز میں اپوزیشن کی ایک خاتون ممبر بول اٹھیں کہ مسٹر سپیکر اگر میں چرچل کی اہلیہ ہوتی تو اس کی کافی کے کپ میں زہر گھول دیتی‘ جس پر چرچل نے بر جستہ کہا مسٹر سپیکر اگر میں اس خاتون کا شوہر ہوتا تو خوشی سے کافی کا وہ کپ پی لیتا‘ کہنے کا مقصد یہ ھے کہ ہاؤس آف کامنز میں بھی حکومتی اور اپوزیشن کے اراکین کے درمیان نوک جھونک رہتی ہے پر وہ اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑتے ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ سے احتراز کرتے ہیں اور نہ ہی آپس میں گتھم گتھا ہو کر ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔‘