قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں یہ بات ہم اس لئے لکھ رہے ہیں کہ ہم میں من حیث القوم اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ اخلاقیات کی ہے جس کے فقدان کا مظاہرہ روزانہ ہر طبقہ کے کاموں میں دکھائی دیتا ہے خود احتسابی تو ہم میں ناپید ہے وطن عزیز میں اگر ایک طبقہ ان گنت پیسوں کی ریل پیل میں رہتا ہے تو دوسرا غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں‘ اس طبقاتی تقسیم سے ملک میں کئی معاشی اور اخلاقی نوعیت کے مسائل نے جنم لے لیا ہے حکمرانوں کو ایسا طریقہ کار وضع کرنا ہوگا جس کے ذریعے راتوں رات کھرب پتی بننے کے مواقع پر کڑی نظر رکھی جا سکے برطانیہ میں پروفیسروں کو ہر سال آ ٹومیٹک ترقی یا تنخواہ میں سالانہ انکریمنٹ نہیں ملتا یونیورسٹی کا ایک احتسابی بورڈ ہر سال کے اواخر میں بیٹھتا ہے یہ دیکھنے کے واسطے کہ جن پروفیسر صاحبان کی تنخواہ بڑھانا مقصود ہے کیا انہوں نے سال گزشتہ میں اپنے مضمون میں کوئی کتاب لکھی ہے یا کوئی مقالہ تحریر کیا ہے اگر نہیں تو پھر ان کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا ڈاکٹر مریض کو دیکھنے کے بعداس کو فیس کی رسید نہیں دیتا، ہمارا دکان دار جو مال فروخت کرتا ہے لین دین کا صحیح درست دستاویزی ریکارڈ نہیں رکھتا محض اس لئے کہ وہ کسی قسم کے ٹیکس کی زد میں نہ آجائے انسانی فطرت ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ زمین کے اوپر اپنے قیام کے دوران وہ بے پناہ دھن بنائے اور پھر اس سے شاہانہ زندگی گزارے محل نما بنگلے بنائے لگثری گاڑیوں میں گھومے اس قسم کے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا آ سان نسخہ یہ ہے کہ ان پر معیار زندگی ٹیکس لگا دیا جاے اور ان سے حصہ بقدر جثہ کے حساب سے ٹیکس وصول کیا
جائے اس طرح نہ صرف اس قسم کے لوگ اپنے بنگلے کے حدود اربعہ کو ٹیکس لگانے والوں کی نظر سے چھپا سکیں گے اور نہ اپنی کاروں کو‘ اس طریقہ کار سے ایک تیر میں کئی شکار کئے جا سکتے ہیں اگر ایک شخص جس کی مالی استطاعت صرف اتنی ہے کہ وہ سائیکل بھی نہ خرید سکے یا تین مرلے کے مکان میں رہتا ہو ان سے بھی اتنا ہی ٹیکس وصول کرنا زیادتی نہیں تو کیا ہے کہ جتنا کئی کنالوں پر محیط بنگلوں میں رہنے والوں سے وصول کیا جاتا ہے ان دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا نا انصافی نہیں تو کیا ہے دولت کی نمائش کرنے والوں اور کروفر میں زندگی گزارنے والے سال میں کئی کئی بار عرب امارات اور یورپ جانے والوں پر بھاری ٹیکس لگانے کے کئی فوائد ہیں غریب آدمی یہ سوچے گا کہ چلو ٹھیک ہے اگر کوئی شخص مال بنا رہا ہے حکومت اس سے بھاری ٹیکس بھی تو وصول کر
رہی ہے اور اس طرز عمل سے دولت کی نمائش کرنے والا سادگی کی زندگی اپنانے پر مجبور ہو سکتا ہے جب وہ دیکھیں گے کہ نمائش کر نے والوں پر بھاری ٹیکس لگ رہا ہے نیز کرپشن سے دھن بنانے والوں کا بھی اس طریقہ کار سے سراغ مل سکتا ہے کیونکہ حلال کی کمائی سے تو اتنا مال نہیں بنایا جا سکتا کہ کوئی کروڑوں روپے مالیت کے بنگلوں میں رہے اور وہ ایک نہیں کئی کئی لگژری کاریں رکھے اس کے بال بچے اسلام آباد کے ان سکولوں میں پڑھیں کہ جہاں ڈالروں میں فیس وصول کی جاتی ہو یا وہ یورپ اور امریکہ کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہوں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے جو لوگ غلط طریقوں یا ٹھیک طریقوں سے بھی دھن کما رہے ہیں پر اپنی عیاشیوں کے لئے اس پر سانپ بنے بیٹھے ہیں اور رفاح عامہ پر ڈھیلا بھی نہیں خرچ کر رہے تو ان کو کسی نہ کسی طریقے سے نکیل ڈال کر ہی حکمران معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لا سکتے ہیں۔