پشاور شہر کے وسط میں چوک یادگار سے چند ہی قدموں کے فاصلے پر واقع گھنٹہ گھر کے بارے میں علاقہ کے بڑے بوڑھوں سے بچپن میں ہم نے یہ سنا تھا کہ اسے ایک مقامی ہندو ٹھیکیدار جو بھالو کے نام سے مشہور تھا نے اپنے جواں سال لڑکے کی یاد میں بنایا تھا جو جوانی میں ہی مر گیا تھا اور یہ کہ اس کی لمبائی پہلے زیادہ تھی جو بعد میں اس کے ز لزلے سے گرنے کے خوف سے گھٹا دی گئی تھی‘بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ اس کی تعمیر ایک ہندو ٹھیکیدار نے کی تھی پر یہ اس دور میں بنا تھا جب جارج کننگھم اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر تھے اور ملکہ وکٹوریہ کی تخت نشینی کی برطانیہ کی کالونیوں میں گولڈن جوبلی منائی جا رہی تھی اور یہ اسی گولڈن جوبلی کے سلسلے میں 1901ء میں بنا تھا‘ یعنی اس کی تعمیر کو سو سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔
بہر حال گھنٹہ گھر پشاور شہر کی وہی تاریخی اہمیت ہے جو لندن میں ایستادہ بگ بینbig Ben کی ہے‘شکر ہے کہ اب تک ہمارے اس قسم کے نا عاقبت اندیش رہنماوں کی نظروں سے گھنٹہ گھر بچا ہوا ہے‘ جنہوں نے جدیدیت کے نام پر پشاور کے پرانے تاریخی چوک یادگار کے چبوترے کو توڑ پھوڑ کر اس کا حشر نشر کر دیا ہے۔
فرنگیوں کے زمانے میں جو جو بھی تعمیرات اس علاقے میں ہوئی ہیں‘ بھلے وہ عمارات تھیں یا دریاؤں پر پل تھے وہ آج بھی سو یا دو سوسال گزر جانے کے بعد کسی بڑی مرمت کے محتاج نہیں۔اٹک کا پرانا پل ہی مثال کے طور پر دیکھ لیجئے گا جس پر ریل گاڑی بھی گزرتی ہے اور چترال اور قبائلی علاقوں میں درجنوں کے حساب سے پلوں کو دیکھ لیں حیرت ہوتی ہے ان کی مضبوطی کو دیکھ کر۔
خیبر پختونخوا کے ارباب بست و کشاد ذرا اس بات کا پتہ توپہلے کریں کہ آ خر کیا وجہ ہے کہ صوبائی حکومت کے اس فیصلے کو ابھی تک عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا کہ جس کے تحت پشاور شہر میں واقع برصغیر کے معروف فلمی اداکاروں دلیپ کمار اور راج کپور کے آباگی گھروں کو نیشنل ہیرٹیج ڈکلیئر کر کے میوزیم بنانے کا اعلان کیا گیا تھا اس فیصلے کو اب تو کئی سال بیت چکے ہیں فیصلے کے فوراً بعد ابتدائی ایام میں تو متعلقہ سرکاری محکمے نے پھرتی کا مظاہرہ ضرور کیا تھا پر بعد میں معاملہ لگتا ہے سرخ فیتے کا شکار ہو گیا ہے دلیپ کمار کا مکان تو اتنا مخدوش ہو چکا ہے کہ اگر وہ ابھی تک گرا نہیں تو کسی وقت بھی گر سکتا ہے البتہ اس کے برعکس راج کپور کی حویلی قدرے اچھی حالت میں موجود ہے‘فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے طبقوں نے اس تاخیر پر تشویشِ کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اب بغیر کسی مزید التواء کے ان مکانات کو سرکاری تحویل میں لے کر انہیں میوزیم میں تبدیل کیا جائے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ قصہ خوانی بازار کے تقریباً ایک مربع میل کے اندر اندر کئی وہ مکانات واقع ہیں کہ جن میں بالی ووڈ کے عظیم اداکار دلیپ کمار‘ناصر خان‘ راجکپور پیدا ہوئے اور شاہ ولی قتال قصہ خوانی میں شاہ رخ خان کا آ بائی گھر بھی واقع ہے ان کے علاوہ خیبر پختونخوا میں پیر پیائی کے گاؤں میں گل حمید کی شکل میں ایک بہت ہی خوبرو اداکار پیداہوا‘ جس نے بالی وڈ کی کئی خاموش silent فلموں میں 1920ء کی دہائی میں کام کیا اور عوامی پذیرائی حاصل کی اور آج وہ امان گڑھ نوشہرہ میں مٹی کی چادر اوڑھے ابدی نیند سو رہا ہے‘
معروف خوبرو فلم سٹار ونود کھنہ اور انیل کپور بھی پشاور کی دھرتی کی پیداوار تھے‘کیا ہی اچھا ہو‘ اگر کوئی ٹیلی ویژن چینل ان تاریخی فلمی شخصیات پر خصوصی دستاویزی فلمیں تخلیق کرے۔