نئے سال کا سورج طلوع ہونے والا ہے‘اسی طرح نئے سال کا چاند اور ستارے بھی چمکنے والے ہیں‘خدا کرے نیا سال وطن عزیز کے ہر باسی کے لئے خوشیوں کا پیغام لائے اور نیک فال ثابت ہو‘اس کی زندگی پر چھائے ہوئے دکھوں اور غموں کے کالے بادل چھٹ جائیں وہ اس پاکستان کا بے چینی سے منتظر ہے جس کا خواب شاعر مشرق اور بانی پاکستان نے دیکھا اور جس کی آ س میں وہ 1947ء سے انتظار کر رہا ہے اس کی آ س میں اس کی ہمت ابھی تک نہیں ٹوٹی اور جواں ہے‘ فیض صاحب کا یہ شعر عوام کے دل کی آواز تھی کہ
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
نیا امریکی صدر ماہ رواں میں آئندہ چار برسوں کے واسطے وائٹ ہاؤس کا نیا مکین بننے والاہے‘ امریکی صدور کا یہ ہمیشہ سے شیوہ رہا ہے کہ وہ خارجہ امور میں ہر اس ملک کے اس سیاسی رہنما کو گھاس ڈالتے ہیں جو ان کی ڈگڈگی پر ناچتا ہو ۔ یہ بات تو طے ہے کہ جہاں تک وطن عزیز کا تعلق ہے‘ دور حاضر میں پاکستان کا چین اور روس کی
طرف جھکاؤ امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا‘ ٹرمپ پاکستانی حکمرانوں سے توقع رکھے گا کہ وہ اسی طرح امریکہ کی جھولی میں بیھٹے کہ جس طرح ماضی میں اکثر پاکستانی حکمران بیٹھتے چلے آئے ہیں۔یہ البتہ اور بات ہے کہ یہ پاکستان کے مفاد میں بالکل نہیں ہو گا کہ پاکستان چین اور روس سے اپنا منہ موڑے۔خدا خدا کر کے روس کا ہم نے ایک لمبے عرصے بعد اعتماد دوبارہ حاصل کیا ہے‘ جہاں تک چین کا تعلق ہے اس کی دوستی پر ایک امریکہ نہیں بلکہ دس امریکہ قربان کئے جا سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کو حال ہی میں معاشی مشکلات سے باہر نکالنے میں اس نے جو کمک دی ہے اس کا جواب نہیں‘ اس لئے پاکستان کے ارباب بست و کشاد کو ببانگ دہل امریکہ کی نئی انتظامیہ پر بغیر
کسی لگی لپٹی یہ بات واضح کرنا ہو گی کہ وہ اپنے دو ہمسایہ ممالک روس اور چین کے خلاف کسی بھی امریکی سیاسی چال کا حصہ نہیں بنے گا‘نہ جانے اس موقع پر ہمیں ایوب خان کی خود نوشت جس کا ٹائٹل الطاف گوہر نے friends,not masters لکھا تھا‘کیوں یاد آ گیا ہے ”ہم نے امریکہ کے ساتھ بھی بنا کر رکھنی ہے پر اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ ہم واشنگٹن کی اندھی تقلید میں چین کے ساتھ کسی بے وفائی کا سوچیں تک بھی کہ وہ ہمارے جنم جنم کا ساتھی ثابت ہوا ہے روس کے خلاف امریکہ کی سرد جنگ میں ہم نے بھرپور حصہ لے کر ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات اس حد تک بگاڑ لئے تھے کہ ان کو ٹھیک کرنے میں ہمیں کئی زمانے لگے‘ اب ہم اسی قسم کی کسی اور سیاسی غلطی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ وزارت خارجہ میں وزیر خارجہ سے لے کر فارن سروس کے نچلے ترین کیڈر میں کام کرنے والوں کو مندرجہ بالا پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہو گی۔ان چند ابتدائی کلمات کے بعد بلدیاتی نمائندوں میں پھیلی ہوئی اس بے چینی کا ذکر بے جا نہ ہوگا جو اگلے روز انہوں نے جناح پارک پشاور میں ایک احتجاجی مظاہرہ کے دوران دکھلائی۔ایک عرصے سے وطن عزیز میں برسر اقتدار آ نے والی تقریباً تقریباً ہر سیاسی جماعت نے قوم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ عوام کے روزمرہ کے میونسپل نوعیت کے مسائل حل کرنے کے واسطے لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں کو ضروری اختیارات دئیے جائیں گے اور مالی طور پر ان کو خود مختیار بنایا جائے گا پر عملاً اس وعدے کو کسی نے بھی ایفا نہیں کیا اس زبانی جمع خرچی پر بلدیاتی نمائندوں کا غصے کا اظہار کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی‘اچھے کام کی تعریف کرنا ضروری ہے بھلے کرنے والے کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔رستم شاہ مہمند سابق ہوم سیکرٹری خیبر پختونخوا اگلے روز داعی اجل کو لبیک کہہ گئے انہوں نے بطور سول سرونٹ کافی نام کمایا وہ ایک نہایت ہی دیانت دار اور فرض شناس افسر تھے ان جیسے سول سرونٹس بہت ہی کم نظر آ تے ہیں وہ ایک عرصے سے معدے کی بیماری میں مبتلا تھے ان کی رحلت سے بلا شبہ سول سروس ایک اچھے سول سرونٹ سے محروم ہو گئی ہے۔