دوسری جنگ عظیم تک تو امریکہ برطانیہ اور دیگر کئی مغربی ممالک بشمول سوویت یونین ہٹلر کے خلاف جنگ میں یک جان دو قالب تھے پر جوں ہی ہٹلر صفحہ ہستی سے مٹا تو امریکہ اور برطانیہ اور دیگر کئی مغربی ممالک نے پینترا بدلا ان کی سیاسی ترجیحات بدلیں اور وہ سوویت یونین کے خلاف نبرد آزما ہو گئے‘ انہیں کمیونسٹ معاشی نظام سے چڑ تھی اور اس وقت چونکہ دنیا میں سوویت یونین کو کمیونزم کا سب سے بڑا علمبردار تصور کیا جاتا تھا امریکہ نے اس کے خلاف سرد جنگ کا سلسلہ شروع کر دیا‘ امریکہ نے کئی مغربی ممالک سے مل کر آپس میں ایک عسکری نوعیت کا نیٹو کے نام سے اتحاد بھی بنا لیا جس کا پھر سوویت یونین نے وارسا پیکٹ کے نام سے ایک محاذ تشکیل دے کر توڑ نکالا اور یوں دنیا دو گروپوں میں تقسیم ہو گئی‘جو بات قابل ذکراور غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ گو کہ چین بھی ایک کمیونسٹ ملک تھا پر اس نے ایک لمبے عرصے تک امریکہ اور سوویت دشمنی میں اپنے آپ کو زیادہ ملوث نہ کیا بلکہ low profile رکھا
اور روس نے بھی چین کے ساتھ سرد مہری کی پالیسی رکھی یہ تو جب وسطی ایشیا کا امریکن سی آ ئی اے نے تیا پانچا کیا اور ایک منظم سازش کے تحت سوویت یونین کے چنگل سے کئی وسطی ایشیا کے ممالک کو نجات دلوائی تو تب کہیں جاکر سوویت یونین کی لیڈرشپ کو احساس ہوا کہ اس کے ساتھ تو ہاتھ ہو گیا ہے اس نے غالباً اسی مرحلے پر یہ بھی فیصلہ کیا کہ تن تنہا روس امریکہ کا سیاسی اور عسکری میدان میں مقابلہ نہیں کر سکتا اور اسے اس مقصد کے واسطے چین کی معاونت درکار ہو گی یہ وہ وقت تھا جب پیوٹن روس کے سیاسی افق پر نمودار ہو رہا تھا‘ ایک عام روسی کی طرح اس کا خون بھی جوش مار رہا تھا کہ کس طرح امریکہ سے سوویت یونین کو توڑنے کا بدلہ لیا جائے‘چنانچہ روس چین کے قریب آنا شروع ہو گیا اور چین کی لیڈرشپ کو بھی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ روس اور چین کے اشتراک عمل سے ہی دنیا میں کمیونسٹ بلاک ایک مضبوط سیاسی اور عسکری قوت بن سکتا ہے‘ آج چین اور روس واقعی دنیا کا ایک طاقتور عسکری اور سیاسی گروپ بن چکا ہے جس نے امریکہ کے پالیسی ساز اداروں کی نیندیں حرام کر دی ہیں‘ لگ یہ رہا ہے کہ آنے والی ایک دو صدیوں میں شاید عالمی سیاست میں چین اور روس کا راج ہو گا اور امریکہ زوال پذیر ہونا شروع ہو جائے‘ امریکہ کی لیڈرشپ میں سیاسی دیوالیہ پن کی اس سے بڑی نشانی بھلا کیا ہوگی کہ آج روزویلٹ جیسے مدبرانہ سوچ رکھنے والے کی جگہ لاابالی ٹرمپ وائٹ ہاؤس کا مکین بننے جا رہا ہے۔دوسری طرف چین کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ماؤ زے تنگ اور چو این لائی کے لگائے ہوئے پودے آج قد آ ور شجر بن رہے ہیں ان دونوں کی فراہم کردہ سیاسی تربیت سے چین میں ان دونوں کی وفات کے بعد آج بھی چین کے ایوان اقتدار میں جو افراد بر سر اقتدار آ رہے ہیں‘ وہ اسی مشن کو آگے لے کر بڑھ رہے ہیں کہ جس کی ان کمیونسٹ پارٹی کے مندرجہ بالا دو لیڈروں نے داغ بیل ڈالی تھی۔ وفاقی وزیر اویس لغاری کا یہ بیان کہ پاکستان روس تعلقات پر مغرب کو ناراض نہیں ہونا چاہیے‘ اپنی جگہ بجا‘ پر امریکہ اور اس کے حواری یہ کب برداشت کر سکتے ہیں کہ پاکستان اس کمیونسٹ بلاک کے نزدیک چلا جائے کہ جو روس اور چین کے اشتراک عمل سے دنیا میں ایک مضبوط سیاسی اور معاشی شکل میں ابھر رہا ہے اور جو امریکہ کی آ نکھوں میں کھٹکتا ہے۔