ہم اس کالم کے توسط سے ایک عرصے سے ارباب بست و کشاد کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرا رہے ہیں کہ پولیس کے نچلے کیڈرز میں بھرتی کے نظام میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ بسا اوقات اس نوع کی شکایات آتی رہتی ہیں کہ ان کی بھرتی میرٹ کی دھجیاں اڑا کر سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہیں‘ اگلے روز اس ضمن میں غزنی خیل میں جو احتجاجی مظاہرہ ہوا ہے وہ اسی حقیقت کا ہی غماز ہے‘یہ مداخلت ہر صوبے میں کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے پولیس کے نچلے کیڈرز میں افرادی قوت کی کارکردگی کافی دگرگوں ہے ان کی بھرتی کے عمل میں پارلیمانی نمائندے سلیکشن بورڈ پر پریشر ڈال کر یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے منظور نظر افراد کو بھرتی کیا جائے یہی وجہ ہے کہ پولیس جرائم پیشہ افراد کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا رہی‘کیونکہ پیشہ ورانہ طور پر اس کے افراد اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے لئے اس لئے نا اہل ہیں کہ وہ میرٹ پر بھرتی نہیں کئے جا رہے۔ ہر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو بار بار اپنے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقے میں امن عامہ برقرار رکھنے کے واسطے فرانٹیئر کانسٹیبلری یا فرانٹیئر کور کی اضافی پلاٹوں کی خدمات مستعار لینی پڑتی ہیں کیونکہ جو پولیس فورس اس کے پاس موجود ہے وہ ڈلیور نہیں کر پاتی‘ جب تک پولیس کے نچلے کیڈرز میں بھرتی اس طریقہ کار پر نہیں کی جائے گی کہ جس طرح افواج پاکستان میں رینکرز یعنی رنگروٹوں rankers کی بھرتی ہوتی ہے‘ پولیس کی کارکردگی بہتر نہیں ہو سکتی۔ان چند ابتدائی سطور کے بعد تازہ ترین اہم قومی اور عالمی امور پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔جنوبی کوریا کی ائر لائنز کے حالیہ کریش crash سے ایک مرتبہ پھر یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ائر پورٹ کے قریب تعمیرات خصوصاً ہاؤسنگ سوسائٹی کے تحت آ بادیاں بنانا کتنا خطرناک کام ہے کیونکہ جہاں انسانی آ بادی ہوگی وہاں چرند پرند کا آ نا جانا ضرور ہوگا اور ائر پورٹ پر لینڈنگ یا ٹیک آف کے وقت اگر کوئی چھوٹا سا پرندہ بھی جہاز سے ٹکرا جائے تو جہاز کریش کر سکتا ہے اس لئے آج کل دنیا کے کئی ممالک میں ائرپورٹ شہروں سے کافی دور بنائے جا رہے ہیں۔پشاور ائر پورٹ پر بھی ایک زمانے میں کئی ائر لائنز کے پائلٹوں نے لینڈ کرنے اور ٹیک آف کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اس کے آس پاس پرندے پائے جاتے تھے‘ پشاور ائر پورٹ کا ایک اضافی مسئلہ یہ بھی تھا کہ اس کے اطراف میں آبادی کے لوگ اکثر بارات یا کسی کے ہاں اولاد نرینہ کی پیدائش پر خوشی سے ہوائی فائرنگ بھی کرتے تھے جو لینڈنگ یا ٹیک آف کے موقع پر جہازوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی تھی۔اس کا تو کافی حد تک تدارک ہو چکا ہے۔البتہ دیگر حفاظتی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد جاری رہنا چاہئے۔