وقت طلوع دیکھا‘وقتِ غروب دیکھا

  مسجد مہابت خان  کے ساتھ ملحقہ ایک کٹرہ ہے جس کے گراؤنڈ فلور پر بڑی بڑی چند دکانیں اور کچھ گودام تھے جب کہ پہلی منزل پر کچھ رہائشی کمرے تھے اور تیسری منزل پر دو ایک چھوٹے برامدے اور کھلی چھت تھی جس کی چار فٹ اونچی دیوارسے مسجد مہابت خان کا بہت ہی دل کو چھونے والا نظارہ مسحور کر دیتا تھا‘ یہ 1970 کی دہائی کے اوائل کی بات ہے جب میں اکوڑہ خٹک سے پشاور آیا تھا تو اسی کٹرہ مہابت خان کے رہائشی حصہ میں کمرہ نمبر25 کا مکین تھا، دو چارپائیوں پر مشتمل اس چھوٹے سے کمرے میں اس وقت کے سارے اہم اور معتبر شعرائے کرام تشریف لاتے تھے جن میں فارغ بخاری،شرر نعمانی اور شمیم بھیروی  کے ساتھ ساتھ میری طرح کے نوواردان ادب کی ایک بڑی تعدادبھی شامل تھی، اکثر و بیشتر آنے والوں میں نذیر تبسم،خاور احمد اشرف عدیل،طارق احد نواز اور عزیز اعجاز جب کہ ہر روز آنے والوں میں داؤد حسین عابد،یوسف عاصی اور جہانزیب جہاں تھے میں پندرہ سال تک اس کمرے میں رہائش پزیر رہا یہ کمرہ در اصل برادر بزرگ آغا جی سید پیر محمد شاہ نے انیس سو ساٹھ کی دہائی میں اس وقت کرایہ پر لیا تھا جب وہ بسلسلہ ملازمت پشاور میں مقیم تھے مگر بعد کے برسوں میں وہ صوابی، مردان چارسدہ،سوات،چترال اور لاہور میں بھی رہے لیکن یہ کمرہ نہیں چھوڑا انہیں پشاور سے عشق تھاکہا کرتے تھے دنیا بھر کے شہروں کی سیر اپنی جگہ مگر پشاور کے قصہ خوانی میں شام گزارنا اور دکانوں کے فٹ بورڈز پر بیٹھ کر قہوہ پینے کی سی لذت کہیں بھی نہیں ان کے پشاور میں کئی دوست تھے جن سے انہیں بہت پیار تھا، میں نے اپنی پہلی کتاب زندگی (ڈرامہ) کا انتساب والد مرحوم،والدہ مرحومہ اور برادر بزرگ سید پیر محمد شاہ  (بابو چن)کے نام  کرتے ہوئے لکھا ہے ” جو  میرے بچپن  میں    بچوں کے رسائل اور کہانیوں کی اتنی بہت سی کتابیں خرید کرلاتے کہ بچپن ہی سے میرا رشتہ ”کہانی“ سے جڑ گیا تھا“  اور پھر لڑکپن اور جوانی میں کمرہ  نمبر پچیس نے بھی میری ادبی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کیا‘اسی طرح جب میں  ہائی سکول اکوڑہ خٹک میں محض پانچویں کلاس کا طالب علم تھا تو ”بابو چن“ کے ہی کہنے پر میر استاد محترم حاجی راحت گل مرحوم(جن کے نام سے پشاور کا راحت آباد  موسوم ہے) نے میرا نام تقریری مقابلہ میں شامل کر دیا تھا کیونکہ ہائی سکول اکوڑہ خٹک کے ہیڈ ماسٹر کے کمرے  میں کئی ٹرافیاں مو جود تھیں جن پر برادر بزرگ سید پیر محمد شاہ کا نام لکھا ہوا تھا، جو وہ سکول کے لئے تقریری مقابلہ میں جیت کر لائے ہوئے تھے  وہ اپنے وقت کے ایک بہت عمدہ ڈبیٹر تھے سو  ان کی خواہش پر میرا نام بھی لکھ دیا گیا جس کا فوری فائدہ مجھے یہ ہوا کہ میں  نے اپنی زندگی کا پہلا سفر ایبٹ آباد کا کیا جہاں کے گورنمنٹ کالج میں یہ تقریری مقابلہ ہونا تھا اور ڈھارس یوں بندھی کہ مقابلہ
 والے دن ہی میرے برادر بزرگ بھی ایبٹ آباد کالج پہنچ گئے، اور پھر بڑی مشکل سے حاجی راحت گل سے اجازت لے کر مجھے ایبٹ آباد کی سیر کے لئے دو دن کے لئے روک دیا تھا، مجھے اس مقابلہ میں حوصلہ افزائی کا انعام ملا تھا جس کا تعلق میر ی تقریر یا پرفارمنس  سے زیادہ میری عمر سے تھا کیونکہ اس کل پاکستان  سکول،کالج ڈیبیٹ میں سب سے کم عمر میں تھا جس نے سٹول پر کھڑے ہو کر تقریر کی تھی، ہم نے وہ دو دن ان کے بہت ہی محبتی دوست ابرار قریشی کے پاس گزارے جو ان دنوں ایبٹ آباد کالج میں پڑھتے تھے اور ہاسٹل کی بجائے ایک گھر میں رہائش پذیر تھے انہوں نے ہماری خوب سیوا کی اور سیر کرائی آج کل وہ کینیڈا میں مقیم ہیں جہاں ان کے کزن اور میرے بھائی کے دوست یحییٰ قریشی بھی رہتے ہیں، بات کمرہ نمبر پچیس کی ہو رہی تھی جو برادر بزرگ کا کمرہ تھا  وہ جہاں بھی جاتے ہفتہ دو میں چند دن  پشاور گزارنے آ جاتے تھے، پشاور میں ان کی محبت کا ایک اور مرکز پشاور کی روحانی اور پشاوریوں کو دل و جان سے عزیز شخصیت ’مولوی جی‘  سید امیر شاہ قادری گیلانی کا آستانہ تھا جہاں وہ باقاعدہ حاضری دیا کرتے تھے اور مولوی جی کے چند ایک خاص مریدین میں ان کا شمار یوں بھی ہو تا تھا کہ ان کے پورے خانوادے سے ان کاتعلق  خاص تھا، والد مرحوم کی طرح برادر بزرگ بابو چن کو بھی فارسی اور اردو  کے کئی اشعار ازبر تھے اس لئے وہ مولوی جی کی محفل میں سنایا کرتے تھے،  میں انیس سو ستر کی دہائی میں پہلی بار ان کے ساتھ مولوی جی سرکار کی خدمت عالیہ میں حاضری دی تھی اور ان کی وجہ سے مجھے ان سے اتنا پیار ملا کہ ایک بار میں اپنے پی ٹی وی کے ایک پروگرام کے لئے ان کا انٹرویو کرنا چاہتا تھا تو میں ان کے  بڑے برخوردار سے فون پر رابطہ کیا ان دنوں مولوی جی سرکار کی طبیعت ناساز تھی اس لئے انہوں نے معذرت کر لی میں نے ان سے کہا آپ مولوی جی سرکار سے بات تو کریں میں تھوڑی دیر کے لئے حاضر ہو جاؤں گا اور مختصر بات کروں گا، انہوں نے کہا کہ میں آپ کا پیغام دے دوں گا مگر یہ ممکن نہیں ہو گا، اور پھر اسی شام شیر آغا کا فون آ یا،کہ آپ کب آنا چاہتے ہیں میں نے کہاکہ جب بھی مولوی جی کا حکم ہو، تو کیا وہ
 مان گئے،کہنے لگے ڈاکٹرز نے آرام کا مشورہ دیا ہے میں نے آپ کا کہا تو کہنے لگے ’گلے!  ان کو انکار مت کریں آغاجی پیر محمد شاہ کے بھائی ہیں“  وہ ان کی زندگی کا آخری انٹرویو تھا جو ٹی وی سے نشر ہوا، میں نے یہ واقعہ با بو چن کو سنایا تو بہت خوش ہوئے تھے۔ بابو چن کے ساتھ جس نے بھی  ایک بار تھوڑا سا وقت بھی گزارا تو وہ ان کے علم اور خصوصاً شعر و ادب کی معلومات سے بہت متاثر ہوتے، حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ ان کے حافظہ نے کبھی  ان سے بے وفائی نہیں کی اور ان کو اکابرین کی ساری حکایات اور ان کے فرمودات حرف بہ حرف یاد تھے اور جب بھی مو قع ملتا پوری تفصیل سے بتاتے تھے  اخبار باقاعدگی سے پڑھتے تھے ابھی گزشتہ مہینے دس دسمبر کو بابو چن نے اپنی 90 ویں سالگرہ منائی اور 24 دسمبرکی شام تک بھلے چنگے تھے البتہ بھابھی کی طبیعت قدرے ناساز تھی جن کی عیادت کے لئے چھوٹے بھائی ناظم علی شاہ سمیت کچھ اور فیملی کے لوگ بھی آ جارہے تھے اس شام بابو چن نے سید در کامل سے پا نی مانگا  اور کہا ایک کپ چائے بنا دیں خلاف معمول  بس ایک آدھ گھونٹ پانی پی کر مسکراتے ہوئے گلاس واپس کر دیا اور جب وہ گلاس رکھ کر مڑے تو مسکراہٹ جیسے ان کے ہونٹوں پر سرد ہو چکی تھی‘بیمار بھابھی کو یقین دلانا مشکل تھاسو شاید یہی معلوم کرنے چار دن کے بعد وہ خود بھی چلی گئیں، ایک ہفتہ میں دعا کے دو بڑے دروازے بند ہونے نے ادھ موا سا کر دیا ہے جس رات میں اپنے بھتیجوں اور ذیشان کے ساتھ با بو چن کی میت کے پاس بیٹھا تھا  پہلے کینیڈا سے یحییٰ قریشی  اور خالد قریشی کے یکے بعد دیگربرقی پیغامات آئے اور پھرابرار قریشی کا ٹیلی فون آیا بہت لمبی بات کی میں حیران ہو رہا تھا اور پوچھنا چاہ رہا تھا کہ ابھی تو فیملی کے سب لوگوں تک بھی اطلاع نہیں پہنچی اتنی دور کیسے اطلاع پہنچ گئی۔ مگر پوچھ نہ سکا  ویسے بھی مجھے اپنے ایک سوال کا جواب مل گیا تھادوست جانتے ہیں کہ مجھے 22 دسمبر کو عتیق صدیقی کی کتاب کی رونمائی کی تقریب کے لئے نیو یارک جانا تھا ٹکٹ کے مطابق مجھے 19 گھنٹے دوحہ میں رکنا تھا بس اسی کو بہانہ بنا کر آخری لمحوں میں ارادہ ملتوی کر دیا،سب پوچھ رہے تھے کہ کیا ہوا؟ کیا بتاتا کہ خود مجھے اس سوال کا جواب تین دن بعد اس وقت  ملا جب با بو چن اور بھابھی دونوں بچھڑ گئے، جب میں مولوی جی سرکار کا انٹرویو کر رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ پیر محمد شاہ نے مجھے بتا یا کہ آپ کے والد مرحوم آخری دنوں میں ایک شعر بہت پڑھا کرتے تھے گلے! آپ کو یاد ہے، میں نے سنا دیا تھامدثرحسین شاہ بتا رہا تھا کہ وہی شعر بابو چن بھی پڑھا کرتے تھے اور  اب تو اکبر اؔلہ آبادی کا یہ شعر میں بھی پڑھتا رہتا ہوں۔
 وقت ِ طلوع دیکھا، وقت ِ غروب دیکھا
 اب فکر آخرت ہے دنیا کو خوب دیکھا