دوسری جنگ عظیم میں تو امریکہ اور روس شانے سے شانہ ملا کرہٹلر کے خلاف لڑے تھے پر اس جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ کی سیاسی ترجیحات بدل گئیں اور اس نے روس کے خلاف جو کہ اس وقت کمیونزم کا علمبردار تھا سرد جنگ کا آغاز کر دیا امریکہ جو کہ کیپٹلزم کا داعی تھا کمیونزم کو اپنے نظام کے خلاف سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا تھا اور خدا لگتی بھی یہ ہے کہ سٹالن اور اس کے بعد خروشیف اور اس جیسے آمرانہ اذہان کے سویت لیڈروں نے کئی ممالک کو زور زبردستی فتح کیا جس سے دنیا میں سوویت یونین کا امیج کافی حد تک خراب ہوا‘ اس روش کو روکنے کے لئے امریکہ نے نیٹو کے نام پر ایک عسکری اتحاد کی داغ بیل ڈالی جس کے ردعمل میں پھر اس وقت کے سوویت یونین نے وارسا پیکٹ کے نام سے کمیونسٹ ممالک کا ایک اتحاد بنا ڈالا اور اس طرح دنیا دو واضح مختلف سیاسی گروہوں میں تقسیم ہو گئی‘ یہ کشمکش ایک لمبے عرصے تک جاری رہی قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس عرصے کے دوران ماﺅزے تنگ کی قیادت میں چین اس تمام ماجرے کو سائیڈ لائن پر بیٹھ کر دیکھتا رہا اور اس نے امریکہ اور سوویت یونین کی رقابت سے اپنے آپ کو دور رکھا چینی لیڈرشپ کا یہ فیصلہ وقت نے صحیح ثابت کیا کہ امریکہ کو مات صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے کہ جب سائنس اورٹیکنالوجی میں اسی قدر مہارت حاصل کر لی جائے کہ جو امریکہ کو حاصل ہے اور اس مقصد کے حصول کے واسطے چین کو 2014 ءتک عالمی سیاست میں سر جھکا کر چلنا ہوگا اور امریکہ کے خلاف کسی بھی عالمی تنازعے میں ملوث ہو کر اور پنگالے کر اپنی انرجی کا ضیاع نہیں کرنا ہوگا‘ امریکہ لاکھ کوشش کرتا رہا کہ وہ چین کو مشتعل کر کے کسی جنگ میں الجھائے پر ماﺅزے تنگ اور چو این لائی کی فراست اور دور اندیشی کے کارن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا یہ بات کئی مبصرین کو عجیب لگتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم سے لے کر چند ماہ قبل تک کہ جب تک پیوٹن روس میں برسر اقتدار نہیں آیا تھا چین باوجود اس حقیقت کے کہ وہ بھی ایک کمیونسٹ ملک ہے اس نے امریکہ اور سوویت یونین کی آپس میں کشمکش سے اپنے آپ کو دور رکھا اس دوران چین اور روس آپس میں کچھے کچھے رہتے تھے اور ان میں وہ گرمجوشی اور یک جہتی نظر نہیں آ تی تھی جو پیوٹن کے برسر اقتدار آ نے کے بعد دیکھنے میں آئی ہے‘ پیوٹن چونکہ ایک عرصے تک روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کا سربراہ رہا تھا اس نے بڑے نزدیک سے دیکھا تھا کہ امریکن سی آئی اے نے کس طرح سوویت یونین کے ٹکڑے کئے تھے اور کئی وسطی ایشیا کے ممالک کو ماسکو سے جدا کیا تھا یہ ایک ایسا زخم تھا جو ہر روسی کے دل و دماغ کو لگا تھا اور وہ اس انتظار میں تھا کہ روس میں کوئی ایسا فرد کریملن میں براجمان ہو جو امریکہ سے اس کا بدلہ چکاہے عام روسی سوویت یونین کے ان حکمرانوں کو اس کے ٹوٹنے کاذمہ دار ٹھہراتے تھے کہ جو سٹالن کے بعد ماسکو کے ایوان اقتدار میں اس وقت تک براجمان رہے کہ جب تک پیوٹن نے روس کی قیادت نہیں سنبھالی ‘پیوٹن کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ تن تنہا روس امریکہ کو کسی میدان میں چت نہیں کر سکے گا۔ ادھر چین کی قیادت نے گو کہ چین کو ہر میدان میں چشم کشا اور حیرت انگیز ترقی دلوا کر ایک مضبوط سیاسی اور عسکری ملک بنا دیا تھا وہ بھی اس بات پر پیوٹن سے ذہنی ہم آہنگی رکھتی تھی کہ ایک ایک اور دو گیارہ ہوتے ہیں‘ امریکہ کے مقابلے میں روس اور چین مل کر اگر رہیںگے تو یہ بات دونوں کے واسطے فائدہ مند ثابت ہو گی چنانچہ اب کچھ عرصے سے عالمی سیاسی افق پر روس اور چین یک جان دو قالب نظر آتے ہیں اور امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ ان دونوں کی دوستی میں رخنہ ڈالا جائے کیونکہ آج دنیا میں کمیونسٹ بلاک جتنا مضبوط ہے شاید اتنا مضبوط پہلے کبھی نہ تھا۔
اشتہار
مقبول خبریں
لارنس آف عریبیہ اور میرانشاہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
نہ تیری دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
غزہ جنگ بندی پھر کھٹائی میں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
چین امریکہ کی ھٹ لسٹ پر ھے
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
تاریخ کی درستگی ضروری ہے
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امیگریشن پر پابندی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
پشاور کی تاریخی فصیل کی حالت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
وہ پشاور کہاں کھو گیا ہے؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سوچنے کی باتیں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ