ہمارے پڑوس میں دو باد شاہتیں ہوا کرتی تھیں‘افغانستان میں کنگ ظاہر شاہ کی اور ایران میں شہنشاہ ایران کی 1970ء کی دہائی ان دونوں کے واسطے منحوس ثابت ہوئی اور ان ہی دو عشروں میں ان کا دھڑن تختہ ہوا‘ اگر شہنشاہ ایران امریکہ کی جھولی میں نہ کھیلتے اور اپنے ملک میں مذہبی طبقوں سے بنا کر رکھتے تو وہ اس حال تک نہ پہنچتے کہ جس میں ان کو وطن چھوڑ کر بھاگنا پڑا‘اسی طرح اگر افغانستان کے شاہی خاندان کے افراد بھی اپنے ملک کے قبائلی اکابرین کے ساتھ بنا کر رکھتے تو ان کو بھی برے دن دیکھنے نہ پڑتے۔آج سے ساٹھ برس پہلے بھلا کون یہ سوچ سکتا تھا کہ افغانستان پر ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ کنگ ظاہر شاہ اور اس کے خاندان کا صفایا ہو جاے گا‘پر چشم فلک نے پہلے ظاہر شاہ اس کے بعد ان کے قریبی رشتہ دار اور سنگی ساتھیوں سردار داد اور سردار نعیم اور ان کی اولاد کو کابل کے ایوان اقتدار سے رخصت ہوتے دیکھا‘ سردار داد کو تو بلوائیوں نے قتل کرنے کے بعد ایک نامعلوم مقام پر شوز کے ساتھ ہی دفنا دیا تھا اوران کی قبر کی شناخت کئی برسوں بعد ان کے پاؤں میں پہنے ہوئے اس برانڈ کے شوز سے ہوئی جو وہ اکثر پہنا کرتے تھے‘آج افغانستان کے اس شاہی خاندان کا کوئی پرسان حال نظر نہیں آ تا کچھ اسی قسم کا حشر ہمارے دوسرے ہمسایہ ملک ایران کے شہنشاہ کا بھی ہوا اس نے اپنی خفیہ ایجنسی ساوک کے کارندوں کے ہاتھوں جس طرح ایران میں اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کروایا وہ اس کے گلے پڑ گیا اور انقلابیوں نے جب اسے ایران چھوڑنے پر مجبور کیا تو اسے سر چھپانے کے لئے کوئی ملک جگہ دینے کے لئے تیار نہ تھا۔
اور اسکی میت کو اگر مصر کی حکومت دو گز زمین فراہم نہ کرتی تو اس کا جو حشر ہوتا وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے شاعر نے سچ ہی تو کہا ہے
جگہ جی لگانے کی دینا نہیں ہے
ازل نے نہ کسری ہی چھوڑا نہ دارا
اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
یہ عبرت کی جاہے تماشا نہیں ہے