کنکورڈ کی نشاۃ ثانیہ


 اس حقیقت کے باوجود کہ گاہے گاہے ہوائی جہاز کریش ہوتے آ ئے ہیں مگر بھر بھی ہوائی سفر کو انسانوں کیلئے محفوظ ترین سفر کہا جاتا ہے یہ تیز ترین رفتار ہوائی سفر اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گیا جب ایروناٹیکل انجینئروں نے کنکورڈ نامی طیارہ تخلیق کیا جس کی رفتار آواز کی رفتار سے زیادہ تھی اس کی سبک رفتاری کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہ طیارہ بحر اوقیانوس کے اوپر پرواز کر کے لندن سے نیویارک کا سفر صرف تین گھنٹوں میں طے کیا کرتا تھا جبکہ دوسرے جہاز یہ فیصلہ نو گھنٹے میں طے کرتے کنکورڈ جہاز انگلستان اور فرانس نے مل کر بنائے تھے اور یہ 1969ء اور 2000ء تک پرواز کرتے رہے گو کئی لوگوں نے اس سائنسی عجوبہ کی یہ کہہ کر مخالفت بھی کی کہ یہ شہروں کے اوپر سے گزرتے وقت شور و غل بہت مچاتا ہے جس سے لوگوں کے آرام میں خلل پڑتا ہے‘ ہمیں یاد ہے کہ جب فرانس کے صدر پیرس سے اسلام آباد اس جہاز 
میں آئے تو لینڈنگ کے وقت راولپنڈی کے کئی مکانات کے شیشے اس کے شور سے ٹوٹے تھے ان دنوں چکلالہ راولپنڈی کا ہوائی اڈہ استعمال ہوتا تھا کہ ابھی اسلام آباد کا اپنا ہوائی اڈہ نہیں بنا تھا کنکورڈ کی مخالفت اس وجہ سے بھی کی گئی کہ اس کا کرایہ بھی بہت زیادہ ہے اور یہ کہ یہ فیول بھی بہت کھاتا ہے وغیرہ وغیرہ پر ان اعتراضات کے باوجود کئی برسوں تک یہ طیارہ یورپ اور امریکہ کے درمیان اڑتا رہا۔ 1990ء کی دہائی میں ایک دو واقعات ایسے ہوے کہ جن کی بنا پر اس کی ساخت اور پروازوں کی سیفٹی پر انگلیاں اٹھائی جانے لگیں جس کے نتیجے میں اس کے جہازوں کو پھر گراؤنڈ کر دیا گیا اب شنید یہ ہے کہ امریکہ اور جاپان کی ایئر لائنز مل کر کنکورڈ کی نشاۃ ثانیہ کرنے والی ہیں اور son of concorde کے نام تلے ایسے جہاز بنا رہی ہیں کہ جو 900 میل فی گھنٹے کی رفتار سے اڑینگے دوسرے الفاظ میں پشاور سے کراچی کے درمیان صرف ایک گھنٹے کی پرواز ہو گی لندن سے نیویارک تک کا گویا سفر صرف تین گھنٹوں میں طے ہوگا یہ سفر ظاہر ہے کھرب پتی تاجر پیشہ لوگ ہی کر سکیں گے جن کے پاس بے پناہ تجارتی مصروفیات کے باعث وقت بہت کم ہوتا ہے اور پیسہ بے دریغ۔