ہمارے اکثر لکھاری اپنی تحریروں میں ہمارے بیورو کریٹس کو منفی انداز میں پیش کرتے ہیں حالانکہ تمام بیوروکریٹس برے نہیں ہوتے‘ کئی ایسے سرکاری افسران بھی گزرے ہیں کہ جن آسامیوں پر وہ تعینات تھے اگر وہ ان سے ناجائز فائدہ اٹھاتے تو کروڑوں روپے کما سکتے تھے‘غلام اسحاق خان کی ہی مثال لے لیجیے گا کونسی اعلیٰ اسامی ہو گی جس پر وہ نہ رہے ہوں گے۔اسسٹنٹ کمشنر‘ وزارت خزانہ کے جنرل سیکرٹری‘ سینٹ کے چیئرمین اور صدر پاکستان کے عہدے سے جب سبکدوش ہوئے تو ان کے پاس بس وہی زمین تھی جو ان کو ورثے میں اپنے والد سے ملی تھی‘ اس میں ایک انچ کا اضافہ نہیں ہوا تھا۔ پشاور میں ایک درمیانے درجے کے گھر میں انہوں نے وفات پائی‘ ایک مرتبہ ان کی اہلیہ نے ان سے کہا کہ آپ ملک کے صدرہیں؛اپنے واسطے ایک رہائشی پلاٹ تو الاٹ کروا لیں‘انہوں نے برجستہ جواب دیا‘کیا تمہارے پاس یہ گھر نہیں جس میں تم رہ رہی ہو‘ اور بات ختم ہو گئی کیونکہ ان سے کوئی تکرار نہیں کرتا تھاذرا اور پیچھے چلے جائیے‘ میجر جنرل سکندر مرزا جو فوج سے سول سروس میں آئے تھے‘ اور کئی اضلاع میں بطور ڈپٹی کمشنر بھی رہے تھے‘بعد میں ان کو جب ایوب خان نے صدارت سے سبکدوش کر کے لندن ملک بدر کیا تو ان کے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی اور دال ساگ کمانے کے واسطے انہیں لندن کے ایک اوسط درجے کے ہوٹل میں بطور اسسٹنٹ منیجر نوکری کرنا پڑی تھی۔ ماضی قریب میں خیبر پختونخوا میں محمد عبداللہ نامی ایک سول سرونٹ گزرے ہیں کہ جنہوں نے اپنی سروس کے دوران کئی اہم آسامیوں پر کام کیا جیسے کہ ڈپٹی کمشنر‘پولیٹیکل ایجنٹ وغیرہ‘ان کی دیانت داری اظہر من الشمس تھی اسی کٹیگری میں رستم شاہ مہمند کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔جن چند سرکاری اہلکاروں کاہم نے اوپر کی سطور میں ذکر کیا ہے ان میں آج کوئی بھی بقید حیات نہیں ہے یہ افراد سول سروس میں آنے والے نوجوان افسران کے لئے بلا شبہ بہترین رول ماڈل کہلائے جا سکتے ہیں اسی کٹیگری میں کئی اور سرکاری افسران کے ناموں کو شامل کیا جاسکتا ہے پر ان کے نام سر دست ذہن میں نہیں آ رہے‘ان کا ذکر کسی اگلے میں کریں گے۔
چین سی پیک کے تحت پاکستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں دل کھول کر سرمایہ کاری کر ہا ہے‘ یہ اب ان شعبوں سے منسلک اہلکاروں کا کام ہے کہ ان کی ترجیحات درست ہوں اور وہ چین کی سرمایہ کاری سے ایسے ترقیاتی منصوبوں کو لانچ کریں کہ جن سے اس ملک کے عام آدمی کا فائدہ ہو‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور خیبر پختونخوا کے دیگر جنوبی اضلاع سے ہزاروں لوگ وقتا ًفوقتاً مشرق وسطیٰ معاش کے حصول کے لئے ہوائی سفر کرتے ہیں۔ڈی آئی خان میں ایک ہوائی اڈہ پہلے سے ہی موجود ہے پر وہ بڑے جہازوں کے استعمال کے لئے موزوں نہیں‘اس کے چاروں اطراف کافی اراضی موجود ہے کہ جسے اس ہوائی اڈے کو بڑے جہازوں کی لینڈنگ اور ٹیک آف کے لئے استعمال کر کے کشادہ کیا جا سکتا ہے تاکہ قومی ایئرلائن اور غیر ملکی ائر لائنز کے جہازوں کی مشرق وسطیٰ کے لئے ڈی آئی خان سے برائے راست آ مدو رفت ممکن ہو سکے۔ اسی طرح راولپنڈی سے لے کر ٹانک تک فرنگی تقسیم ہند کے وقت ہمیں ورثے میں ایک چھوٹے سائز کا ریلوے ٹریک اور اس پر جگہ جگہ کوہاٹ‘ بنوں‘ سراے نورنگ اور ٹانک میں ریلوے سٹیشن چھوڑ گئے تھے‘ اس ٹریک کو ڈبل کر کے اگر موجودہ ریلوے لائن کو پیزو سے ڈیرہ اسماعیل خان تک بڑھا دیا جائے اور اسی طرح ٹانک تک پہلے سے ہی موجود ریلوے ٹریک کو براستہ منزی تنائی فورٹ سنڈیمن تک بڑھا دیا جائے تو بلوچستان جانے کے لئے بھی ایک متبادل رستہ مل سکتا ہے‘ اس سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ اگر ایک طرف عام آدمی کو سفر کے لئے ایک محفوظ ذریعہ آمدورفت میسر آ جائے گا۔ مال گاڑیوں کے ذریعے تاجر حضرات اشیائے صرف کو قدرے کم ٹرانسپورٹیشن اخراجات سے خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع اور بلوجستان بھجوا سکیں گے‘جس سے اشیا ئے صرف عوام کو کم قیمت پر میسر ہوں گی کیونکہ روڈ ٹرانسپورٹ سے ان کی دور رسائی پر ٹرانسپورٹیشن پر بھاری خرچ اٹھتا ہے۔ کراچی کے اندر سرکلر ریلوے اور ٹرام سروس کی بحالی اور پشاور شہر چھاؤنی اور حیات آباد تک آمدورفت کے واسطے ٹرام سروس کا اجرا ء عام آدمی کو سستی سفری سہولت فراہم کر سکتا ہے۔ اسی طرح سی پیک کے توسط سے ملک کے ہر بڑے شہر میں ہر سڑک پر دونوں جانب سے سائیکل سواروں کے لئے ایک علیحدہ ٹریک بنانا ضروری ہے‘جس پر مرد وزن بغیر کسی ٹریفک کے حادثے کے سائیکل پر آ جا سکیں‘ اس سے اگر ایک طرف کاروں‘موٹر سائیکلوں اور بسوں سے گیسوں کے اخراج سے جو فضائی آ لودگی پیدا ہوتی ہے وہ ختم ہو گی لوگ بلڈ پریشر اور شوگر کی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔