امن کی چابی دو ممالک کے پاس ہے 

ہو سکتا ہے سعودی عرب میں ٹرمپ اور پیوٹن کی پہلی ملاقات کے بعد پیوٹن امریکہ کا اور ٹرمپ روس کا دورہ بھی کریں جن سے یوکرائن کے مسئلے پر ان دو سپر پاورز کے درمیان تناؤ میں کمی آ جائے اگر یہ ممکن ہو جاتا ہے تو بلا شبہ اس سے تیسری عالمگیر جنگ کا خطرہ کافی حد تک ٹل سکتا ہے‘ اگر امریکہ تائیوان کی چین کے خلاف ہلا شیری کرنے سے بھی باز آ جائے تو پھر تو  سونے پر سہاگے والی بات ہو جائے گی۔جہاں تک مشرق وسطیٰ کی بات ہے‘ اسرائیل نے کمال چالاکی سے امریکہ کے ہاتھوں کرنل قذافی اور صدام حسین جیسے مسلم رہنماؤں کا قلع قمع کرا دیا ہے جن کو وہ اپنے وجود کے واسطے خطرہ سمجھتا تھا لہٰذا اگر مسلم ممالک نے آپس کے فروعی اختلافات ختم کر کے دنیا میں ایک مسلم بلاک بنا کر علامہ اقبال کے اس نظریہ کو عملی جامہ نہ پہنایا کہ ”ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے۔نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر“ تو پھر ان کا خدا ہی حافظ ہے‘اس وقت اپنی اپنی جگہ ٹرمپ اور پیوٹن دونوں سخت مزاج کے مالک ہیں اور اپنے اپنے ملک میں سیاسی طور پر بھی مضبوط پوزیشن کے مالک ہیں وہ اگر صدق دل سے دنیا کو تیسری عالمگیر جنگ کے شعلوں سے بچانا چاہتے ہیں تو ان کو آپس میں مل جل کر سیاسی اختلافات سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا‘جہاں تک چین کا تعلق ہے وہ ماضی قریب کی طرح لگتا ہے آئندہ چند برس مزید  اس تگ و دو میں رہے گا کہ سی پیک کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائے جس کے واسطے وہ ہر بر اعظم میں امن و آشتی چاہے گا۔
 تاکہ ان میں جاری سی پیک کے ترقیاتی منصوبوں کے کاموں میں کوئی خلل نہ پڑے‘بالفاظ دیگر بیجنگ کبھی بھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا کہ جس سے دنیا کا کوئی حصہ بھی سیاسی انتشار کا شکار ہو جہاں تک او آ ئی سی کا تعلق ہے اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے‘ نہ ماضی میں اس نے کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دیا ہے کہ جس سے دنیا میں کسی مسلم ملک کی معاشی یا سائنسی بہتری واقع ہوئی ہو اور نہ مستقبل میں اس سے کسی اچھائی کی امید رکھی جا سکتی ہے۔