امیگریشن پر پابندی

تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق برطانیہ میں امیگریشن بیس فیصد کم ہوئی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہاں پر تیسری دنیا سے آنے والوں کے اپنے کرتوت ہیں‘ جیسا کہ ان کی تشدد آمیز  اور بعض  اخلاق سوزحرکات جنہوں نے مغرب کی سوسائٹی کو ان سے متنفر کر دیاہے‘ یہ بات بھلا وہاں کے لوگ کیسے اور کیونکر برداشت کریں  کہ جن لوگوں کو انہوں نے پناہ دی ہے وہ ان کے طرز زندگی کے بجائے ان پر اپنا رہن سہن کا طریقہ نافذ کریں‘کھائیں پئیں تو ان کا اور پھر ان سے زور کے بل بوتے پر اپنی بات بھی منوائیں‘اور اب تو ٹرمپ نے بھی امیگریشن کے خلاف ڈنڈا اٹھا لیا ہے۔امریکہ میں غیر ملکیوں کا دخول بڑا مشکل کر دیا ہے‘ فرنگی طنزا ًامریکہ کو نیشن آف نیشنز یعنی مختلف اقوام پر مشتمل ایک ملک یا قوم کہتے آ ئے ہیں‘پر لگتا یہ ہے کہ اب انگلستان کی طرح وہ بھی اپنے دروازے غیر ملکیوں کے لئے بند کر رہا ہے‘اس صورت حال سے یقینا وہ غیر ملکی متاثرہوں گے جو وہاں رہائش پذیر ہیں یا معاش کی تلاش میں وہاں جانے کے واسطے پر تول رہے ہیں۔یوں تو یورپ  میں برطانیہ کے علاوہ کئی اور ممالک بھی ہیں جیسا فرانس‘ڈنمارک‘ ناروے‘سویڈن‘پولینڈ‘چیکو سلواکیہ‘ ہنگری‘بلجیم‘ ہالینڈ‘ پرتگال‘  جرمنی‘ روس‘سپین‘یوگو سلاویہ  وغیرہ‘ پر برطانیہ کا ڈنکا اس لئے  زیادہ بجتا ہے کہ ایک لمبے عرصے تک اس نے دنیا کے ایک بڑے علاقے پر حکومت کی‘کہ بقول کسے اس کا حجم اتنا زیادہ تھا کہ اس پر سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا کوئی مانے یا نہ مانے برطانیہ نے جن جن ممالک پر حکمرانی کی جب انہوں نے اپنی کالونیوں کو آزاد کیا اور وہاں سے رخصت ہوئے تو وہاں منظم سرکاری ادارے ورثے میں چھوڑ گئے یہ افسوس ناک بات ہے کہ آزادہھونے والے ممالک نے بجائے اس کے کہ وہ ان اداروں کو مزید مضبوط بناتے ان میں سے اکثر اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ان کا حلیہ بگاڑ دیا اور آج وہ برے دنوں کا شکار ہیں۔چین سی پیک کے تحت پاکستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں دل کھول کر سرمایہ کاری کررہا ہے‘ یہ اب ان شعبوں سے منسلک اہلکاروں کا کام ہے کہ ان کی ترجیحات درست ہوں اور وہ چین کی سرمایہ کاری سے ایسے ترقیاتی منصوبوں کو لانچ کریں کہ جن سے اس ملک کے عام آدمی کا فائدہ ہو‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور خیبر پختونخوا کے  دیگر جنوبی اضلاع سے ہزاروں لوگ وقتا ًفوقتاً مشرق وسطیٰ معاش کے حصول کے لئے ہوائی سفر کرتے ہیں۔ڈی آئی خان میں ایک ہوائی اڈہ  پہلے سے ہی موجود ہے پر وہ بڑے جہازوں کے استعمال کے لئے موزوں نہیں‘اس کے چاروں اطراف کافی اراضی موجود ہے کہ جسے اس ہوائی اڈے کو بڑے جہازوں کی لینڈنگ اور ٹیک آف کے لئے استعمال کر کے کشادہ کیا جا سکتا ہے تاکہ قومی ایئرلائن اور غیر ملکی ائر لائنز کے جہازوں کی مشرق وسطیٰ کے لئے ڈی آئی خان سے برائے راست آ مدو رفت ممکن ہو سکے۔ اسی طرح راولپنڈی سے لے کر ٹانک تک فرنگی تقسیم ہند کے وقت ہمیں ورثے میں ایک چھوٹے سائز کا ریلوے ٹریک اور اس پر جگہ جگہ  کوہاٹ‘ بنوں‘ سراے نورنگ اور ٹانک میں ریلوے سٹیشن چھوڑ گئے تھے‘ اس ٹریک کو ڈبل کر کے اگر موجودہ ریلوے لائن کو پیزو سے ڈیرہ اسماعیل خان تک  بڑھا دیا جائے اور اسی طرح ٹانک تک پہلے سے ہی موجود ریلوے ٹریک کو براستہ منزی تنائی فورٹ سنڈیمن تک بڑھا دیا جائے تو بلوچستان جانے کے لئے بھی ایک متبادل رستہ مل سکتا ہے‘ اس سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ اگر ایک طرف عام آدمی کو سفر کے لئے ایک محفوظ ذریعہ آمدورفت میسر آ جائے گا۔ مال گاڑیوں کے ذریعے تاجر حضرات اشیائے صرف کو قدرے کم ٹرانسپورٹیشن اخراجات سے خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع اور بلوجستان بھجوا سکیں گے‘جس سے اشیا ئے صرف عوام کو کم قیمت پر میسر ہوں گی کیونکہ روڈ ٹرانسپورٹ سے ان کی دور رسائی پر ٹرانسپورٹیشن پر بھاری خرچ اٹھتا ہے۔
 کراچی کے اندر سرکلر ریلوے اور ٹرام سروس کی بحالی اور پشاور شہر چھاؤنی اور حیات آباد تک آمدورفت کے واسطے ٹرام سروس کا اجرا ء عام آدمی کو سستی سفری سہولت فراہم کر سکتا ہے۔ اسی طرح سی پیک کے توسط سے ملک کے ہر بڑے شہر میں ہر سڑک پر دونوں جانب سے سائیکل سواروں کے لئے ایک علیحدہ ٹریک بنانا ضروری ہے‘جس پر مرد وزن بغیر کسی ٹریفک کے حادثے کے سائیکل پر آ جا سکیں‘ اس سے اگر ایک طرف کاروں‘موٹر سائیکلوں اور بسوں سے گیسوں کے اخراج سے جو فضائی آ لودگی پیدا ہوتی ہے وہ ختم ہو گی لوگ بلڈ پریشر اور شوگر کی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔