ماضی کی بات ہے کہ جب ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور ہر ٹرائبل ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ نے عام پبلک میں اپنا ایک مخبر رکھا ہوتا تھا جو ہر رات ان کو مل کر شہر اور قبائلی علاقے کے سیاسی حالات سے آگاہ کرتے اور وقت وقت کی خبر پہنچاتے ان مخبروں کے نام صیغہ راز میں رکھے جاتے کہ مبادا ان کے ہم وطن ان کو جاسوسی کرنے کے الزام میں کوئی نقصان نہ پہنچا دیں اس کام کے عوض ڈی سی اور پولیٹیکل ایجنٹ ان کو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو کچھ نہ کچھ رقم بطور مشاہرہ اپنے سیکرٹ فنڈ سے ادا کر دیتے تھے اس سسٹم کے ذریعے ڈی سی اور پولیٹیکل ایجنٹ کو اپنے دائرہ اختیار میں ہونے والے ہر اچھے برے کام سے بروقت آ گاہی ہوتی رہتی تھی اور وہ ان کا بروقت حل نکال لیا کرتے تھے اس دور میں بھی سرکار کا سی آئی ڈی کا محکمہ موجود تو تھا ہر مخبری کے مندرجہ بالا اضافی نظام سے ڈپٹی کمشنر اور پولیٹیکل ایجنٹ کو سی آہی ڈی کی رپورٹوں کو کراس چیک کرنے کا ایک ذریعہ حاصل تھا جس سے وہ اپنے دائرہ اختیار والے علاقے میں امن عامہ بحال رکھنے کے واسطے مناسب بروقت اقدامات اٹھا لیتے تھے ڈپٹی کمشنر جو کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی ہوا کرتا تھا ایک بڑا موثر انتظامی ادارہ تھا جو ضلعی انتظامیہ کا
محور تھا جس کے ذریعہ ہر حکومت اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتی تھی ضابطہ فوجداری اور ضابطہ دیوانی پر عمل درآمد کرانے میں بھی اس کا ایک کلیدی کردار ہواکرتا تھا اسی طرح ہر لوکل اور سپیشل لاء کے اطلاق میں بھی اس کے کردار کو مرکزیت حاصل تھی اس ادارے کی بیخ کنی کرنا کوئی دانشمندانہ اقدام نہ تھا،اس کی جگہ نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو NRB نے جو لوکل گورنمنٹ کا متبادل سسٹم پیش کیا وہ اس کا درست نعم البدل ثابت نہ ہو سکا‘ آج ہر ضلعی انتظامیہ کئی مسائل کا شکار نظر آ رہی ہے‘ قومی ادارے بڑی مشکل سے تجربات کی روشنی میں پنپتے ہیں ان کو چشم زدن میں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا کوئی دانشمندانہ اقدام نہیں ہوتا وقت کے ساتھ ساتھ اگر ڈپٹی کمشنر کے ادارے میں کوئی سقم نظر آ رہا تھا تو اسے کسی ترمیم کے ساتھ رفع دفع کیا جا سکتا تھا پر ڈی سی کے ادارے کو جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکنے کی بھلا کیا ضرورت تھی مشرف کی حکومت کے ڈیولیشن پلان سے ملک کے انتظامی ڈھانچے کو جو نقصان پہنچا ہے اسے قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ محکمہ مال کو قانون کے مطابق چلانے کے واسطے گو کہ ویسٹ پاکستان لینڈ ریونیو ایکٹ موجود ہے اس کے ساتھ ساتھ ریونیو معلومات پر دو بہترین کتابیں بھی موجود ہیں جن کو لینڈ ریکارڈ مینوئل اور لینڈ ایڈمنسٹریشن مینوئل کہا جاتا ہے‘ افسوس کا مقام یہ ہے کہ پٹواری سے لے کر ریونیو بورڈ میں تعینات اعلی ترین مناصب پر فائز اہلکار ان کتابوں میں درج ہدایات پر عمل پیرا نہیں ہوتے جس کی وجہ سے چھوٹے اور بڑے زمیندار دونوں بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور ریونیو کے لاتعداد تنازعات کھڑے ہو رہے ہیں اس پر طرہ یہ کہ تحصیل دار کی عدالت ہو کہ افسر مال یا ڈسٹرکٹ کلکٹر کی یا ایڈیشنل کمشنر کی عدالتوں میں زیر سماعت ریونیو مقدمات سالوں سال لٹکے رہتے ہیں۔ اسی طرح ڈی آئی خان اور ٹانک رود کو ہی آبپاشی کے جو نظام رائج ہیں ان کا بھی اراضی کے ایشو کے
ساتھ بھی گہرا تعلق ہے ان پر عمل درآمد کے واسطے فرنگیوں کے دور حکومت سے ہی رواجات آبپاشی اور کلیات آ ب پاشی کے ناموں سے دو کتابیں موجود ہیں کہ جن کے مطابق اگر ڈی سی ڈی آئی خان اور اے سی ٹانک اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رود کو ہی کے نظام کو چلائیں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کسی غریب کاشتکار کی اراضی میں پانی نہ ہو نے کی وجہ سے کوئی فصل نہ اُگائی جا سکے۔ماضی کا مذکورہ نظام بہت ہی اعلیٰ تھا اس میں رائے عامہ کو کنٹرول قکرنے کیلئے بہترین لائحہ عمل اختیار کیا جاتا تھا مگر افسوس کے ایسے نظام کو اصلاحات کے نام پر بارہا تبدیل کرکے اس کی اصل شکل ہی بگاڑ دی گئی ہے جس کے نقصانات کئی ایک ہیں۔ اسی طرح شہروں میں امن و امان مہنگائی ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزوں اور اشیائے خوردنی کے نرخ کنٹرول کرنے کیلئے کسی دور میں مجسٹریٹ ہوا کرتے تھے ان مجسٹریٹس کی نگرانی میں شہروں میں استحکام ہوا کرتا تھا تاہم اس نظام کے خاتمے کے بعد مارکیٹیں اور مہنگائی و ملاوت کی جو صورتحال پیدا ہوئی وہ سب کے سامنے عیاں ہے‘ غرض ماضی کے نظام اور آج کے نظام کا موازنہ کیا جائے تو ماضی بہتر صورت میں سامنے آتا ہے۔