سڑکوں کے  تقدس کی پاسداری 

  ہر مہذب ملک اور معاشرے کا یہ طرہ امتیاز ہوتا ہے کہ وہاں سڑکوں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اور ان کا خیال رکھا جاتا ہے  تاکہ عوام الناس کے معمولات زندگی متاثر نہ ہوں عوام کو احتجاج کرنے کی اجازت ہوتی ہے پر اس طریقے سے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی  نہ ٹوٹے‘حکومت کے نوٹس میں عوام کی شکایت بھی آ جائے اور پبلک کی آمدورفت بھی کسی تعطل کا شکار نہ ہو‘ یہ وطن عزیز کا المیہ ہے کہ ہمارے سیاست دان آپس میں سر جوڑ کر ایک ایسا میکنزم مرتب نہیں کرتے کہ ہر شہر میں ایک مرکزی جگہ مثلاً پشاور میں چوک یادگار یا جناح پارک‘ اسلام آباد میں جی نائن پارک‘لاہور میں منٹو پارک جیسی جگہوں کا انتخاب کر لیا جائے کہ جہاں اگر وہ کسی بات کو حکومت کے گوش گزار کرنا چاہیں تو وہاں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو پیشگی اطلاع کے بعد جمع ہو جائیں اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں‘ اس قسم کے طریقہ کار  میں ہر سیاسی جماعت کا فائدہ ہے کیونکہ اگر آج کوئی جماعت اقتدار میں ہے تو کل   وہ حزب اختلاف میں بھی  آ سکتی ہے‘ آج کل ایک بہت ہی غلط سیاسی کلچر فروغ پا گیا ہے بات بات پر روڈوں کو بند کر کے خلق خدا کو تکلیف پہچانا‘ جو پھر جھولی اٹھا اٹھا کر روڈ بند کرنے والوں کو بد دعا دیتی ہے۔
سابقہ ملکہ برطانیہ الزبتھ اور ان کے شوہر  پرنس فلپس نے بکنگھم پیلس میں کافی لمبا عرصہ گزارا جس کو سیاسی مبصرین اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں کیونکہ  ان کے نام کے ساتھ کسی قسم کا  مالی یا اخلاقی سکینڈل منسوب نہیں‘گو ان کی کوئی خاصیت بھی  ان کے بیٹے کنگ چارلس اور پوتے پرنس ویلم کو چھوڑ کر  ان کے خاندان کے کسی اور فرد میں موجود نہیں۔امریکی  صدر کارپوریٹ دنیا میں ایک اہم مقام رکھتا ہے‘ ٹرمپ فاؤنڈیشن کے نام سے مشہور   وہ ایک  بہت بڑے کمرشل ادارے کا مالک ہے  اور کھربوں روپے کا مالک  اس کا رہن سہن‘بودو باش کسی بھی بادشاہ سے کم نہیں ہے‘ بادشاہوں کی طرح وہ رنگین مزاج بھی ہے  دوسری مرتبہ امریکہ کا صدر بننے کے بعد وہ آئندہ بھی امریکہ کا تیسری مرتبہ صدارتی انتخابات  لڑنے کا خواب  بھی دیکھ رہا ہے   اور امریکن میڈیا ابھی سے اس کے ایک لڑکے  کی شخصیت سازی کے کام پر مختص ہے جو بقول کسے اسے مستقبل کا امریکی صدر کہہ رہا ہے‘امریکہ جیسے ملک میں بھی جو جمہوریت کا دم بھرتا ہے‘ سیاست میں موروثیت کے جراثیم  پائے جاتے ہیں‘ماضی قریب میں بش فیملی میں باپ بیٹا یکے بعد دیگرے امریکی صدر رہ چکے ہیں‘سری لنکا کی بندر نائیکے فیملی میں بھی تین افراد سری لنکا کے وزرائے اعظم  اور ایک صدر رہ چکے ہیں بھارت میں بھی نہرو خاندان کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جس میں ایک سے زیادہ افراد وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے حالانکہ یہ سب سیاسی خاندان جمہوریت کی رٹ لگاتے تھے۔ 
 خاندان عباسی میں بہلول دانا  نامی ایک فرد گزرا ہے جو مجذوب تھا وہ چونکہ بادشاہ وقت ہارون رشید  کا قریبی رشتہ دار تھا اکثر جب وہ  اس کے منہ پر بھی  کوئی  صاف صاف اور کھری بات کہہ جاتا تو  وہ برداشت کر جاتا ایک دن اس کا گزر اس نئے محل کے سامنے سے ہوا کہ جو ہارون رشید نے  تازہ تازہ تعمیر کروایا تھا  اور جس کے سامنے وہ کھڑا تھا اس نے بہلول دانا کو دیکھ کر پوچھا میاں ذرا دیکھو تو  سہی تم کو میرا یہ نیا محل کیسے لگا؟بہلول نے مسکرا کر جواب دیا اگر تو تم نے یہ حرام کی کمائی سے بنایا ہے تو خیانت کی ہے اور اگر حق حلال کی آمد نی سے تعمیر کروایا ہے تو تم اسراف کے مرتکب ہوئے ہو یہ سن کر ہارون رشید لاجواب ہو گیا‘ اس سے خیانت اور اسراف کی بہترین تشریح  بھلا اور کیا ہو سکتی ہے‘ افسوس کہ حکومتی اور نجی  سطح پر  وطن عزیز میں ایک عرصے سے اسراف کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے ۔ملکہ الزبتھ کے شوہر پرنس فلپس بھی بڑے منہ پھٹ قسم کے انسان تھے‘ وہ ہر  بات کو یہ سوچے  بغیر کہ سننے والے کے مزاج پر کہیں  وہ گراں نہ  گزرنے برملا کہہ جاتے  تھے ایک مرتبہ وہ اسلام آباد میں واقع ایوان صدر گئے اور ان کی نظر اس کی چھتوں سے لٹکتے ہوئے قیمتی فانوسوں اور وہاں کے قیمتی فرنیچر پر پڑی تو وہاں پر موجود کئی سینئر سرکاری حکام کے منہ پر یہ بات کہہ ڈالی اب مجھے پتہ چلا کہ آپ لوگ ورلڈ بنک کے قرضوں کا پیسہ کہاں استعمال کرتے ہو۔ پاکستان کے  ایک سابق صدر غلام اسحاق خان  سرکاری افسروں کو ہر وقت کہا کرتے کہ سادگی کا چلن عام کیا جائے کہ کرنسی کے نوٹ درختوں پر نہیں اگتے ایک سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو  نے جب  یہ آرڈر پاس کیا کہ سرکاری حکام بڑی گاڑیوں کے بجائے چھوٹی گاڑیاں استعمال کریں تو ان کا مذاق اڑایا گیا اور مذاق اڑانے والوں نے  یہاں تک کہا کہ چھوٹی گاڑیوں میں تو ہماری ٹانگیں نہیں سماتی ہیں‘نجی سطح ہو کہ سرکاری عمارتوں کی تعمیر میں اسراف کی جھلک صاف صاف دکھائی دیتی ہے۔