چین امریکہ کی ھٹ لسٹ پر ھے

اس وقت چین ٹرمپ کی ہٹ لسٹhit list پرہے اور وہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی حربے سے وہ اسے اسی طرح نقصان پہنچائے کہ جس طرح اس نے سوویت یونین کو پہنچایا ہے اس مقصد کے حصول کے واسطے اب وہ بھارت اور افغانستان دونوں کو استعمال کر رہا ہے پاکستان کی اب ٹرمپ کی آ نکھوں میں کوئی زیادہ  وقعت باقی نہیں رہی کیونکہ اس کی دانست میں جو کام وہ پاکستان سے لینا چاہتا تھا وہ بھارت اور افغانستان زیادہ بہتر انداز میں کر سکتے ہیں‘ ٹرمپ کو چین اور روس کا دوستانہ ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ مستقبل قریب میں ہر وہ کام کرے گا جس سے چین روس دوستانے میں رخنہ پڑتاہو یہ اب روس اور چین کے رہنماوں کی فراست پر منحصر ہو گا کہ وہ امریکہ کے اپنے خلاف عزائم کو کس طرح ناکام بناتے ہیں‘ جہاں تک چین کا تعلق ہے اس کی قیادت جو ماؤزے تنگ کی تربیت یافتہ ہے کافی ذہین اور دور اندیش ثابت ہوئی ہے‘ روس کے صدر پیوٹن کو البتہ بہت بیدار اورہوشیاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا‘ کمیونسٹ بلاک جو ان دو سپر پاورز کے اتحاد سے کافی مضبوط ہو گیا ہے اس کی بقاء صرف اسی صورت ممکن ہے کہ وہ یک جاں دو قالب رہیں ماضی میں بھی اگر سوویت یونین کا زوال ممکن ہوا ہے تو اس کی بڑی وجہ سٹالن کے چلے جانے کے بعد اس کی قیادت میں ایک لمبے عرصے تک سیاسی فہم اور ادراک رکھنے والے افراد کا فقدان تھا‘جس کا فائدہ امریکن سی آئی اے نے بدرجہ اتم اٹھایا اور اسے پاش پاش کر دیا کئی سیاسی مبصرین کا تو یہ خیال ہے کہ حالات اس ڈگر پر پہنچ چکے تھے کہ سوویت یونین کا ایک سربراہ جس کا نام گوربا چوف تھا وہ درحقیقت سی آئی اے کا ایجنٹ تھا جو اس کے ایجنڈے پر چل رہا تھا‘ اس کے پیروکار صرف برصغیرہند و پاک میں ہی نہیں تھے بلکہ وہ سوویت یونین میں بھی پائے گئے ہیں جنہوں نے اندر سے اپنی جنم بھومی کی بیخوں میں پانی دیاہے۔۔پرانے روسیوں اور پیوٹن اور ان جیسی سیاسی سوچ کے مالک کے دلوں کے یہ سوچ کر ٹکڑے ہوتے ہوں گے کہ کہاں وہ سوویت یونین کہ جس میں پندرہ ممالک  ہواکرتے تھے  اور کہاں ان کا آج کا  ملک جو سکڑ کر اب صرف روس تک ہی محدود رہ گیاہے‘ سوویت یونین ان ممالک پر مشتمل تھا جن کے نام یہ ہیں یوکرائن‘کرغستان‘ تاجکستان‘آ ذربائیجان‘آ رمیینیا‘ ازبکستان‘ ترکمانستان‘قازقستان‘ بیلاروس اور  جارجیا وغیرہ‘ امریکی سی آئی اے نے ایسی چال چلی کہ1991 ء میں  سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور وہ صرف روس تک محدود ہو کر رہ گیا‘ اس تنزلی کی وجہ  اس کمزور سوویت یونین کی قیادت پر بھی ڈالی جا سکتی ہے جو خوروشیف کے بعد سوویت یونین میں کافی عرصے  برسر اقتدار رہی جس میں کوسیجن پوڈگورنی‘ بریزنیو اور گوربا چوف  بھی کافی حد تک زمہ دار تھے جنہوں نے کئی   بیرونی ممالک میں بے جا اور غیر ضروری   مداخلت کی‘اپنی چادر سے زیادہ اپنے پاؤں پھیلائے جس کی وجہ سے سوویت یونین کی معیشت پر منفی اثر پڑا اور وہ اپنے  عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہو گیا جس کا پھر سوویت یونین  دشمن ممالک نے فائدہ اٹھایا موجودہ روسی قیادت کا دل تو خواہ مخواہ چاہتا ہو گا کہ سوویت یونین کی  نشاۃ ثانیہ ہو جائے اور وہ پندرہ ممالک بشمول یوکرائن دوبارہ یکجا ہو کر سوویت یونین کا روپ دھار لیں پر امریکہ کب چاہے گا دوبارہ ایسا ہو کیونکہ اس نے سوویت یونین کو توڑ ے کے واسطے دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد ہی  اس کا شیرازہ بکھیرنے کی کوششیں شروع کر دی تھیں جو انجام کار 1991 ء میں رنگ لائیں۔
‘ امریکہ نے الٹا ان ممالک کی ہلہ شیری شروع  کردی جو کبھی سوویت یونین کا حصہ تھے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب تک سٹالن جیسے لیڈر ماسکو میں برسر اقتدار تھے سوویت یونین کا اپنا اندرونی نظام بھی درست چل رہا تھا اور  کسی بیرونی ملک کی بھی اتنی  جرات نہ تھی کہ وہ اس کی طرف میلی نظر سے دیکھ سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔